تو جائز ہے اور قاضی کو چاہئے کہ وہ اسے ضرر اور تکلیف سے نجات دلائے۔ یہ طریقہ اس صورت میں اختیار کرے گی جبکہ اسے اس کے مفقود الخبرشوہر نے نان و نفقہ دے رکھا ہو اور اسے اس لحاظ سے تو پریشانی نہ ہو، مگر بغیر شوہر کے رہنا اس کے لیے دشوار ہو اور اگر ایسی ضرورت پیش آئے کہ نان و نفقہ کے لیے اس کے پا س کچھ نہ ہو تب تو یہی ایک وجہ نکاح فسخ کرانے کے لیے کافی ہے ۔ خواہ شوہر موجود ہو یا مفقود الخبر۔ مختلف آیا ت ا ور احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث: ’’اسلام میں ضرر و تکلیف خود سہنا ہے نہ دوسرے کو پہنچانا۔‘‘[1] مشہورہے، جوحضرت ابن عباس، عبادۃ بن صامت، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابولبابہ، ثعلبہ بن مالک، جابر، عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔[2]
|