Maktaba Wahhabi

264 - 702
’’عَنْ مُجَاشِعٍ مِنْ بَنِي سُلَیْمٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَقُولُ: اِنَّ الْجَذَعَ یُوفِي مِمَّا تُوفِي مِنْہُ الثَّنِیَّۃُ‘‘[1] [مجاشع سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : جذع کافی ہے، جیسا کہ دو دانتا کافی ہے] اور نسائی میں ہے : ’’عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: ضَحَّیْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجَذَعٍ مِنَ الضَّأْنِ‘‘[2] [عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ضان کے جذع کی قربانی کی] اور کشاف القناع (صفحہ ۶۳۵) جو بڑی معتمد کتاب فقہ الحنابلۃ میں ہے، اس میں مرقوم ہے : ’’ولا یجزیٔ في الأضحیۃ وکذا دم تمتع نحوہ إلا الجذع من الضأن، وھو ما لہ ستۃ أشھر، ویدل لإجزائہ ما روت أم بلال بنت ھلال عن أبیھا أن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: تجزیٔ الجذع من الضأن أضحیۃ، رواہ ابن ماجہ، والھدي مثلہ، والفرق بین جذع الضأن والمعز أن جذع الضأن ینزو فیلقح بخلاف الجذع من المعز، قالہ إبراھیم الحربي، ویعرف کونہ أجزع بنوم الصوف علی ظھرہ، قال الخرقي: سمعت أبي یقول: سألت بعض أھل البادیۃ: کیف یعرفون الضأن إذا أجذع؟ قالوا: لا تزال الصوفۃ قائمۃ علی ظھرہ ما دام حملا، فإذا نامت الصوفۃ علی ظھرہ علم أنہ أجذع‘‘[3] [اور قربانی میں جائز نہیں ہے اور اسی طرح تمتع کے دم میں سوائے ضان کے جذع کے اور یہ وہ ہے جو چھے ماہ کا ہو۔ اس کے جوازکی دلیل ام بلال بنت ہلال کی وہ روایت ہے جو وہ اپنے والد سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضان کے جذع کی قربانی جائز ہے۔ اس کی روایت ابن ماجہ نے کی ہے۔ اور ہدی بھی اسی کے مثل ہے۔ ضان کے جذع اور معز میں فرق یہ ہے کہ ضان کا جذع جفتی کرتا ہے اور حاملہ بناتا ہے،
Flag Counter