Maktaba Wahhabi

266 - 702
زمانے میں موجود تھے اور کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پاچکے تھے ۔ امت کی طرف سے قربانی میں بلا تفریق زندہ اور وفات یافتہ دونوں طرح کے لوگ داخل ہو جاتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سے محدثین نے متعدد سندوں سے نقل کی ہے۔ اس کی روایت کرنے والے صحابی ہیں : حضرت جابر، ابو طلحہ انصاری، انس بن مالک، عائشہ، ابوہریرہ، حذیفہ بن اسید، ابو رافع اور علی رضی اللہ عنہم ۔[1]اس حدیث کی بعض سندیں صحیح، بعض حسن اور قوی اور بعض ضعیف ہیں ، مگر ان کے ضعف سے اصل حدیث کی صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث جو مسند احمد، صحیح مسلم اور سنن ابی داود میں مروی ہے،[2] میت کی طرف سے قربانی کے استحباب پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کی تائید باقی دوسرے صحا بہ کی حدیثوں سے ہوتی ہے۔ ان سب سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ ا گر آدمی اپنی طرف سے، اپنے اہل و عیال ، گھر والوں اور میت کی طرف سے قربانی کرے اور ان سب کو ثواب میں شریک کرنا چاہے تو جائز ہے۔ ’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ میں ہے کہ شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز الشہیر ابن الملک فرماتے ہیں : یہ حدیث میت کی طرف سے قربانی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔[3] امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو قربانی اور ا س کے ثواب میں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شریک کرنے کے قائل ہیں ۔ یہی ہمار ا اور جمہور کا مذہب ہے۔ امام ثوری اور امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین اسے مکروہ قرار دیتے ہیں ۔‘‘[4] لیکن میں کہتا ہوں کہ مذکورہ بالا حدیثوں سے ان کی تردید ہوتی ہے۔ امام ترمذی حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کرنے کے بعد فر ماتے ہیں : ’’بعض علما میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز بتاتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے قائل
Flag Counter