Maktaba Wahhabi

267 - 702
نہیں ۔امام ابن المبارک فرماتے ہیں : میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرے، قربانی نہ کرے۔ اگر قربانی کی تواس میں سے خود کچھ نہ کھائے ، بلکہ سب صدقہ کردے۔‘‘[1] شرح السنہ میں امام بغوی نے بھی اسی طرح علما کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔[2] میرے نزدیک جو لوگ جواز کے قائل ہیں ، ان کا قول دلیل کے مطابق ہے۔ مانعین کے پاس کو ئی دلیل نہیں ۔ لہٰذ ا ان کی رائے اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی، جب تک اس سے زیادہ کوئی قوی دلیل نہ پیش ہو اور ایسی کوئی دلیل موجو د نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں یہ منقول نہیں کہ انہوں نے جو قربانی اپنی اور اپنے گھر والوں اور زندہ اور وفات یافتہ امتیوں کی طرف سے کی تھی، وہ سب یا میت کے حصے کے برابر صدقہ کردیا تھا، بلکہ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مسکینوں کو بھی کھلاتے، خود بھی کھاتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلاتے تھے۔ دوسروں کو بھی اسی طرح قربانی کا گوشت کھانے کھلانے کا حکم دیتے تھے ، جیسا کہ متعدد احادیث میں وارد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کیا ہمیں بھی بلا کسی اختلاف کے اسی طرح کرنا چاہیے، جب تک کہ اس کی خصوصیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت نہ ہو۔ اگر ہم چاہیں تو ایک ، دو یا تین جانوروں کی قربانی اپنی، اپنے گھر والوں اور میت کی طرف سے کرسکتے ہیں ۔ یہ ان سب کی طرف سے کافی ہوگی، اس کا ثواب بھی انھیں ان شاء اللہ ضرور پہنچے گا۔ ہمیں اس کا اختیار ہے کہ گوشت خود کھائیں ، دوسروں کو کھلائیں یا صدقہ کریں ۔ ہاں اگر قربانی صرف میت کی طرف سے کی جارہی ہو اور اس میں زندہ لوگ شریک نہ ہوں تو یہ فقرا و مساکین کا حق ہے، جیسا کہ امام ابن المبارک نے فرمایا ہے۔ واللّٰه أعلم وعلمہ أتم۔
Flag Counter