Maktaba Wahhabi

269 - 702
فإن أجاز بقیۃ الورثۃ ما فعل، و قالوا: أجزنا ما أمر بہ المیت ینصرف الإجازۃ إلی الوصیۃ لأنھا مأمورۃ إلی الھبۃ، ولو قال الورثۃ: أجزنا ما فعلہ المیت صحت الإجازۃ في الھبۃ والوصیۃ جمیعا ‘‘ (أیضاً، ص: ۵۱۲) [اگر اس نے اپنے مرض میں اپنے کسی وارث کو کوئی چیز دیدی یا اس کے لیے کسی چیز کی وصیت کردی یا اس کے نفاذ کا حکم دے دیا تو اس سلسلے میں شیخ امام ابو بکر محمدبن فضل نے فرمایا کہ دونوں چیزیں باطل ہیں اور اگر بقیہ ورثا اس کے اس فعل کی اجازت دے دیں اور یہ کہہ دیں کہ میت نے جس چیز کا حکم دیا ہے، ہم نے اس کی اجازت دی تو یہ اجازت وصیت کی جانب لوٹ آئے گی، کیونکہ اس کو ہبہ کرنے کی اجازت ہے اور اگر ورثا نے یہ کہا کہ میت نے جو کچھ کیا ہے، ہم نے اس کی اجازت دی تو اجازت، وصیت اور ہبہ سب کے لیے درست ہوگی] ’’إذا أقر مریض لامرأۃ بدین، أو أوصی لھا بوصیۃ، أو وھب لہا ھبۃ، ثم تزوجہا، ثم مات، جاز الإقرار عندنا، و بطلت الوصیۃ والھبۃ ‘‘ (فتاوی عالمگیری: ۶/ ۱۶۸، مطبو عہ کلکتہ) [جب مریض کسی عورت کے قرض کا اقرار کرے یا اس کے لیے کوئی وصیت کرے یا اس کو کوئی ہبہ دے، پھر اس سے شادی کرلے اور پھر مرجائے تو ہمارے نزدیک اس کا یہ اقرار جائز ہے اور وصیت اور ہبہ باطل ہے] ’’وتبطل ھبۃ المریض ووصیۃ لمن نکحھا بعدھما أي بعد الھبۃ والوصیۃ، لما تقرر أنہ یعتبر لجواز الوصیۃ کون الموصی لھا وارثا أو غیر وارث وقت الموت لا وقت الوصیۃ ‘‘ (الدر المختار برحاشیہ طحطاوی: ۴/ ۲۱۹ مطبوعہ مصر) [مریض کا ہبہ اور اس کی وصیت اس کے لیے، جس سے اس نے نکاح کیا ہے، ہبہ اور وصیت کے بعد باطل ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ بات طے ہے کہ وصیت کے جواز کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے جبکہ وصیت کرنے والے کا کوئی وارث ہو یا نہ ہو ، موت کے وقت نہ کہ وصیت کے وقت] قولہ: ’’وتبطل ھبۃ المریض و وصیتہ الخ‘‘ أما الوصیۃ فلأنھا إیجاب
Flag Counter