Maktaba Wahhabi

270 - 702
مضاف إلی بعد الموت، و ھي وارثتہ حینئذ، والوصیۃ للوارث باطلۃ بغیر إجازۃ، وأما الھبۃ وإن کانت منجزۃ صورۃ فھي کالمضافۃ إلی ما بعد الموت حکماً لأنھا وقعت موقع الوصایا ولأنھا تبرع، یتقررحکمہ عند الموت، واللّٰه تعالی أعلم ‘‘ (طحطاوی: ۴/ ۲۱۹، مطبوعہ مصر ) [مریض کا ہبہ اور اس کی وصیت باطل ہے، الخ۔ رہی وصیت تو یہ ایسی چیز ہے جو موت کے بعد منسوب کی جاتی ہے اور اس وقت وہ اس کی وارثہ ہوتی ہے اور بغیر اجازت کے وارث کے لیے وصیت باطل ہوتی ہے اور رہا ہبہ والا معاملہ جو اگرچہ صورت کے اعتبار سے الگ ہے تو یہ بھی حکماً موت کے بعد منسوب کی جاتی ہے، کیونکہ وصیت کے موقع پر یہ واقع ہوئی ہے اور اس لیے بھی کہ یہ ایک نفلی چیز ہے، جس کا حکم موت کے وقت مقرر ہوتا ہے] جواب سوال دوم: اگر واہب نے یہ ہبہ اپنے بعض اولاد یا کسی دیگر وارث کو کیا ہے تو ہبہ مذکور بغیر اجازت بقیہ ورثہ باطل و ناجائز ہے۔ نہ یہ ہبہ واہب کے کل مال میں جاری ہوگا اور نہ ثلث مال میں ، جیسا کہ جواب سوال اول سے واضح ہوا۔ اور اگر واہب نے یہ ہبہ کسی غیر وارث کو کیا ہے تو در صورت عد م کل مال میں ۔ اس لیے کہ ہبہ مذکورہ حکماً وصیت ہے، جیسا کہ جواب سوال اول میں مذکور ہوا اور وصیت بلا اجازت ورثا صرف ثلث مال میں جاری ہوتی ہے نہ کل مال میں و نہ زائد از ثلث میں ۔ ’’تصح الوصیۃ لأجنبي من غیر إجازۃ الورثۃ کذا في التبیین۔ ولا یجوز بما زاد علی الثلث، إلا أن یجیزہ الورثۃ بعد موتہ وھم کبار الخ کذا في الھدایۃ‘‘ (فتاوی عالمگیری، مطبو عہ کلکتہ، جلد ۶، صفحہ ۱۳۹) [ورثا کی اجازت کے بغیر اجنبی شخص کے لیے وصیت درست ہے۔ ’’التبیین‘‘ میں ایسا ہی ہے۔ البتہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔ الا یہ کہ ورثا اس کی موت کے بعد اس کی اجازت دے دیں اور وہ بڑے لوگ ہوں الخ۔ الہدایہ میں ایسا ہی لکھا ہے] ’’ویجوز بالثلث للأجنبي عند عدم المانع وإن لم یجز الوارث ذلک، لا الزیادۃ علیہ إلا أن یجیز ورثتہ بعد موتہ۔ واللّٰه تعالی أعلم‘‘ ( الدر المختار برحاشیہ طحطاوی: ۴/ ۳۱۵، مطبوعہ مصر)
Flag Counter