Maktaba Wahhabi

272 - 702
قاعدہ مقرر کرنے کے بعد کوئی وارث کبھی اس کے برخلاف حصہ لینے کا عدالت میں اگر دعویٰ کرے تو نہ سنا جائے گا۔ اس پر مسلمانوں نے متفق ہوکر لکھوا دیا کہ ہم کو اپنے مرنے کے بعد جائداد منقولہ و غیر منقولہ یعنی ترکہ کا وارثوں میں تقسیم کرانا مطابق رواج قدیم کے منظور ہے۔ یعنی ہمارے مرنے کے بعد دختر کا کچھ حصہ نہیں ہوگا اور زوجہ اگر نکاح ثانی نہ کرے تو اپنی حین حیات تک اپنے خاوند متوفی کے مال سے صرف خوراک اور پوشاک کی مستحق ہے اور اگر نکاح ثانی کرے تو ایک پیسے کے ملنے کی بھی مستحق نہیں ۔ اس پر سرکار انگریزی نے ان کے لکھوانے کے مطابق قانون پاس کرکے عدالتوں میں قائم کردیا کہ یہاں کے مسلمانوں میں سے کسی کے مرنے پر اس کے ترکہ کا لڑکی (دختر) یا زوجہ اگر کچھ دعویٰ کرے گی تو منسوخ ہوگا۔ عرصہ تخمیناً پچپن (۵۵) سال کا ہوا کہ گورنمنٹ نے مرتبہ اول دریافت کرکے یہ قانون پاس کیا تھا۔ پھر جدید بندوبست یعنی اس اول مرتبہ کے دریافت سے بیس (۲۰) برس بعد پھر گورنمنٹ نے تقسیم وراثت کے متعلق اسی طرح سے دریافت کیا، جیسا کہ سابق بندوبست میں دریافت کیا تھا۔ اس پر بھی سب نے متفق ہوکر لکھوادیا کہ رواج سابق منظور ہے۔ پھر بار سوم بعد بیس (۲۰) سال کے گورنمنٹ نے جدید بندوبست کے وقت بھی مثل سابق وراثت کے متعلق دریافت کیا تو بھی سب نے متفق ہوکر یہی لکھوایا کہ رواج سابق منظور ہے۔ یعنی ترکہ سے لڑکی کا کچھ حصہ نہ ہوگا اور زوجہ اگر نکاح ثانی نہ کرے تو تا حین حیات خاوند متوفی کے مال سے صرف خوراک و پوشاک کی مستحق ہے۔ اگر نکاح ثانی کرے تو ایک پیسہ کے لینے کی بھی مستحق نہ ہوگی۔ گو اس درمیان میں علمائے دین نے کئی مرتبہ از حد فہمائش کی اور بار بار وعظوں میں بیان کردیا کہ مذکورہ بالا رواج بالکل خلاف قرآن مجید ہے اور ہندو کفار کے مطابق ہے۔ اس پر عمل کرنے سے سخت وعید و عذاب کا موجب ہے، مگر کسی نے ان کی سماعت نہ کی اور کچھ پروا نہ کی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ جو مذکورئہ بالا رواج پر برابر عمل کر رہے ہیں اور سمجھانے سے بھی باز نہیں آتے، شرعاً ان پر کیا حکم ہے اور ایسے لوگ ان آیتوں کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ذیل میں درج ہیں مصداق ہیں یا نہیں ؟ حالانکہ ان لوگوں میں سے بہت لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں ،
Flag Counter