Maktaba Wahhabi

315 - 702
ثواب ہے، البتہ کسی خاص ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا یعنی ایک سو رکعت نماز پڑھنا اور ہر رکعت میں بعد سورہ فاتحہ کے دس بار سورہ ’’قل ہو اللّٰه ‘‘ پڑھنا وغیر ذلک کہیں اخبار و آثار سے ثابت نہیں ہے،بلکہ محدث فی الدین ہے اور عامل اس کا بدعتی ہے، اور ایسا ہی تمام شب چراغوں کو روشن کرنا اور سارے مکان میں زیادہ روشنی کر دینا، یہ سب فعل منکر و نا مشروع ہے۔ اور ایسا ہی چودہ شعبان کو یوم عید قرار دے کر اس میں حلوہ پکانا اور اس کو ثواب سمجھنا یہ سب بدعت و ضلالت ہے اور تفصیل ا س کی صراط مستقیم للامام ابن تیمیہ میں ہے۔ وھکذا في الباعث في إنکار البدع والحوادث لأبي شامۃ، وکتاب المدخل للشیخ ابن الحاج وغیر ذلک من الکتب المعتبرۃ۔[1] اور فرمایا علامہ مناوی نے فتح القدیر شرح کبیر جامع صغیر میں بشرح حدیث: (( إن اللّٰه تعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان۔۔۔ الخ )) ’’قال المجد ابن تیمیۃ: لیلۃ النصف من شعبان روي في فضلھا من الأخبار والآثار ما یقتضي أنھا مفضلۃ، ومن السلف من خصہا بالصلاۃ فیھا، وصوم شعبان جاء ت فیہ أخبار صحیحۃ، أما صوم یوم نصفہ مفردا فلا أصل لہ، بل یکرہ، وکذا اتخاذہ موسما تصنع فیہ الحلوی والأطعمۃ، وتظھر فیہ الزینۃ، وھو من المواسم المحدثۃ المبتدعۃ التي لا أصل لھا‘‘[2] انتھی، واللّٰه أعلم [مجد الدین ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ نصف شعبان کی شب کے بارے میں جو اخبار و آثار بیان کیے جاتے ہیں ، وہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ اس رات کی فضیلت ہے۔ سلف میں سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اس شب کو عبادت کے لیے مخصوص کیا ہے اور شعبان کے روزے کے بارے میں صحیح احادیث آئی ہے، البتہ صرف پندرہ شعبان کا روزہ رکھنے کی کوئی بنیاد نہیں ، بلکہ مکروہ ہے۔ اسی طرح اس دن کو رسم کے طور پر اختیار کرنا، جس میں حلوا پکایا اور اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں اور زیب و زینت کا اظہار کیا جاتا ہے، یہ سب نئے اور بدعتی رسوم ہیں ، ان کی کوئی بنیاد نہیں ۔ ختم شد۔ اللہ ہی بہتر جاننے والے ہیں ]
Flag Counter