Maktaba Wahhabi

554 - 702
جیسے دیگر نام رکھتے تھے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: { ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا} حدیث میں ہے کہ حوا علیہا السلام نے اپنے لڑکے کا نام عبد الحارث رکھا اور انھوں نے شیطان کے سکھلانے سے ایسا کیا۔ کئی احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عبد العزیٰ، عبد شمس اور ان جیسے دیگر نام بدل کر عبداﷲ، عبدالرحمن اور ان جیسے نام رکھے، کیونکہ مذکورہ نام شرک کے نمونے اور سانچے ہیں ، اس لیے شارع نے شرک کے ان سانچوں کو اپنانے اور اختیار کرنے سے منع کر دیا] شیخ ابن حجر مکی ہیتمی نے ’’تحفۃ المحتاج شرح منہاج‘‘ میں فرمایا ہے: ’’ویحرم ملک الملوک لأن ذلک لیس لغیر اللّٰه ، وکذا عبد النبي وعبد الکعبۃ أو الدار أو علي أو الحسن، لإیھام التشریک‘‘[1] [شہنشاہ نام رکھنا حرام ہے، کیونکہ یہ نام اﷲ کے علاوہ کسی کے لائق نہیں ہے، اسی طرح عبدالنبی، عبدالکعبہ یا عبدالدار، عبد علی یا عبد الحسن نام درست نہیں ہیں ، کیونکہ یہ اﷲ کا شریک بنانے کا شبہہ ڈالتے ہیں ] شیخ نورالدین علی بن سلطان القاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح‘‘ میں کہا ہے: ’’لا یجوز نحو عبد الحارث و لا عبد النبي و لا غیرہ بما شاع بین الناس‘‘[2] انتھی [عبدالحارث، عبد النبی اور ان جیسے دیگر نام، جو لوگوں میں عام ہیں ، رکھنے جائز نہیں ] نیز علامہ علی قاری نے شرح فقہ اکبر کے ’’فصل في الکفر صریحا و کنایۃ‘‘ میں کہا ہے: ’’وأما ما اشتھر من التسمیۃ بعبد النبي فظاھرہ کفر إلا إن أراد بالعبد المملوک‘‘[3] انتھی [لوگوں میں جو عبد النبی نام رکھنا عام ہوچکا ہے، بظاہر تو یہ کفر ہی محسوس ہوتا ہے، الا یہ کہ اس نام میں ’’عبد‘‘ سے مراد مملوک لے لیا جائے]
Flag Counter