Maktaba Wahhabi

555 - 702
شیخ الاجل محدث الہند قطب دین محمد المدعو بولی اللہ الد ہلوی نے ’’فتح الرحمن في ترجمۃ القرآن‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے قول: { فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ} کے تحت فرمایا: ’’کہتے ہیں کہ یہ صورت حال ہے انسان کی کہ جب حمل ہو تو نیت خالص رکھتا ہے ، مگر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شرکیہ نام رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرکیہ نام رکھنا بھی شرک کی ایک قسم ہے ۔ جیسا کہ غلام فلا ں ، غلام فلاں ۔‘‘[1] نیز اسی شیخ اجل نے ایسے ناموں کی سخت ممانعت میں اپنی کتاب ’’البدور البازغۃ‘‘ میں مفید باتیں فرمائی ہیں ، جن کی نقل موجبِ طوالت ہے۔ خاتم المفسرین والمحدثین مولانا شاہ عبدالعزیز الدہلوی نے ’’تفسیر فتح العزیز‘‘ میں اللہ تعالی کے قول: {لَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَاداً۔۔۔} کے تحت فرمایا ہے کہ عبادت میں اللہ کے ساتھ (دیگر کو) برابر کرنے والے بہت ہیں ۔ ان میں وہ بھی ہیں جو غیر اللہ کا نام ثواب کے لیے لیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو غیر اللہ کے لیے ذبیحہ و قربانی کرتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اپنا نام عبد فلاں ، بندہ فلاں رکھتے ہیں ، اور یہ نام میں شرک ہے۔ شیخ القمقام مہاجر فی سبیل اللہ العلام عالم النبیل مولانا محمد اسماعیل شہید نے ان معنوں کی تحقیق اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں فرمائی ہے۔ جزاہ اللّٰه خیرالجزاء۔ اس کے علاوہ بھی کئی علماے ثقات مثل امام منصور بن یونس نے شرح زاد المستقنع میں اور صاحب ملخص الانوار اور صاحب شرعۃ الاسلام ایسے ناموں کی حرمت کی طرف گئے ہیں ۔ چنانچہ علامہ بشیر الدین قنوجی نے اپنی کتاب ’’صواعق الإلہیۃ لطرد الشیاطین اللّٰه ابیۃ‘‘ میں ان تمام علما کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ بدایوں کے بعض مشرکوں نے شاہ اسماعیل شہید کے کلام پر جو اعتراض کیے ہیں ، ان کا بھی کافی و شافی جواب دیا ہے اور خلق خدا کو ا ن کے پنجۂ ضلالت سے محفوظ کردیا ہے۔ { وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا} [بني إسرائیل: ۸۱] قال العبد الضعیف: کان ابتداء تسوید ھذہ الرسالۃ خامسا من شھر رمضان سنۃ أربع و تسعین بعد مأتین وألف من الھجرۃ النبویۃ، صلوات اللّٰه علیہ، ولقد
Flag Counter