Maktaba Wahhabi

127 - 391
کے عنوان سے ’’نور الأبصار‘‘ کے جواب سے تین وجوہ کی بنا پر پہلو تہی اختیار کی۔ انہی تین وجہوں کی نقاب کشائی محدث مبارکپوری نے ’’تنویر الأبصار‘‘ میں کی ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دے کر پوری حقیقت واضح کر دی ہے۔ بلکہ علامہ نیموی نے نور الابصار کے نام پر یہ طنز بھی کی ہے: ’’ہندوستان میں برخوردار کے ساتھ ’’نور الأبصار‘‘ کثیر الاستعمال ہے، اس نام سے اہلِ مذاق کو عجب شگوفہ ہاتھ آیا ہے۔‘‘ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اے ناظرین! نور الابصار کوئی نیا نام نہیں ہے۔ علمائے متقدمین و متاخرین کی متعدد کتابیں اس نام سے اور اس نام کے مترادف ناموں سے موسوم ہو چکی ہے۔ ازاں جملہ ’’نور الأبصار في مناقب آل بیت النبي المختار‘‘ ایک مشہور کتاب ہے، مگر مولانا شوق صاحب کو ان باتوں کی کیا خبر ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ یہ حضرت غزلیات و ہزلیات لکھ رہے تھے اور حسن و شام سندر کی کہانی منظوم کر رہے تھے اور اب چند روز سے محدث کامل الفن بن بیٹھے ہیں۔ ابھی ان حضرات کو اس نام کی قدر کیا معلوم۔[1] یہاں ان تین وجوہ کی تفصیل تطویل کا باعث ہو گی، لیکن ایک بات کی وضاحت کے لیے عرض ہے کہ جواب نہ لکھنے کا ایک سبب علامہ نیموی کا محدث مبارکپوری رحمہ اللہ پر ’’وضع حدیث‘‘ کا اتہام تھا۔ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ اسے یوں نقل کرتے ہیں: ’’اے ناظرین! میں نے نور الابصار میں لکھا ہے: بخاری کی ایک اور روایت میں ہے: ’’أربعا و عشرین لیلۃ‘‘ ’’قبا میں آپ نے چوبیس رات قیام کیا‘‘اس پر مولوی شوق صاحب (جو اپنے کو سرِلوح محدث کامل الفن لکھوایا کرتے ہیں) اسی لامع الانوار کے آخری ورق میں فرماتے ہیں: چوبیس روز قیامِ قبا کی نسبت
Flag Counter