Maktaba Wahhabi

128 - 391
کسی کتاب حدیث میں کوئی روایت ہر گز نہیں۔‘‘ اور پھر فرماتے ہیں: ’’ذرا ملاحظہ ہو کہ ایک تو ۲۴روز کی روایت گھڑی گئی اور اس پر حوالہ بھی کس کا دیا کہ بخاری کا‘‘ اور پھر فرماتے ہیں: ’’جس شخص کی یہ حالت ہو وہ کیا اور اس کا رسالہ کیا۔‘‘[1] اس اعتراض اور جواب نہ لکھنے کے اس بہانے کا جواب مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے دیا اور بحث کا حق ادا کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بذریعہ اشتہار علامہ نیموی نے اس ’’وضع روایت‘‘ کے الزام سے معذرت کی۔ جس کی ضروری وضاحت آیندہ آرہی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت مطلوب ہے کہ علامہ نیموی کے فرزند مولانا عبدالرشید فوقانی نے ’’القول الحسن‘‘ (ص: ۱۴۸) میں لامع الانوار سے علامہ نیموی کا یہ اعلان ذکر کیا ہے، مگر اس وجہ کو انھوں نے حذف کر دیا۔ غالباً اس لیے کہ جب علامہ نیموی خود اس سے معذرت کر چکے تو اب اسے نقل کرنا فضول اور بے معنی حرکت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عین الحق قاسمی صاحب نے ’’محدث مبارکپوری حیات و خدمات‘‘ (ص: ۱۸۴) میں کہا ہے: مولانا محدث کے بھتیجے حکیم عبدالسمیع صاحب مرحوم نے تنویر الابصار کے حاشیہ میں لکھا ہے: شوق نیموی نے اس رسالے کو دیکھ کر بذریعہ اشتہار اپنا الزام واپس لے لیا، چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: جس عنوان سے صاحب نور الابصار پر الزام قائم کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں، جب بعض نسخے میں اس طرح منقول ہے تو ہماری دیانت اس کو مقتضی نہیں کہ ہماری جانب سے کسی پر وضع روایت کا غلط اتہام قائم رہے۔ لہٰذا ہم صاف طور پر اس الزام کے غلط ہونے کا اعتراف کر کے اس اعتراض کو واپس لیتے ہیں: ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ﴾ [یوسف: ۷۶] (حکیم عبدالسمیع صاحب نے مولانا نیموی کا یہ اعتراف کہاں سے نقل کیا، اس کا حوالہ نہیں دیا)۔
Flag Counter