Maktaba Wahhabi

129 - 391
اولاً: گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ سب تنویر الابصار مطبوعہ ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء سعید المطابع بنارس کے حوالے سے نقل کیا اور تنویر الابصار کے (ص: ۴) کا حوالہ دیا ہے۔ جب کہ یہی مطبوعہ نسخہ راقم کے پیشِ نظر ہے، جس کے (ص: ۴) میں تو کیا کسی صفحہ کے حاشیہ میں مولانا عبدالسمیع کے یہ الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ ثانیاً: ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا: ’’حکیم عبدالسمیع صاحب نے مولانا نیموی کا یہ اعتراف کہاں سے نقل کیا ہے، اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔‘‘ یہ نہایت سطحی سی بات ہے۔ حکیم عبدالسمیع مرحوم نے اس کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ علامہ نیموی نے اس کے بارے میں اشتہار دیا تھا۔ علامہ نیموی نے اس اشتہار کا ذکر خود مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ کے رسالہ تنویر الابصار کے جواب ’’تبصرۃ الأنظار‘‘ میں بھی کیا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب نے بھی علامہ نیموی کا یہ اقرار مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ کے رسالہ ’’ضیاء الأبصار في رد تبصرۃ الأنظار‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ موصوف ’’ضیاء الابصار سے نقل کرتے ہیں‘‘ قال: (علامہ نیموی) میں نے بذریعۂ اشتہار مطبوعہ بخاری کی ۲۴ والی روایت کا انکار واپس لے لیا ہے اور اسی زمانے میں آپ کی خدمت میں اور آپ کے اعوان و انصار کے پاس میں نے وہ اشتہار بھیج دیے ہیں، جس کا شکریہ آپ کو ادا کرنا چاہیے۔ أقول (محدث مبارکپوری) کیا خوب! سنگین غلطی کریں آپ، بذریعۂ اشتہار اس کا اعتراف کریں آپ، اور نہایت ندامت سے واپس لیں آپ۔ اور اس کا شکریہ ادا کروں میں، سچ فرمائیے گا آپ کی یہ بات اعجوبۂ روزگار نہیں ہے؟ (محدث مبارکپوری حیات و خدمات، ص: ۱۸۹)اس لیے یہ کہنا کہ مولانا عبدالسمیع صاحب نے علامہ نیموی کے اعتراف و اقرار کا حوالہ نہیں دیا۔ بالکل مہمل بلکہ بے توجہی کا نتیجہ ہے۔
Flag Counter