Maktaba Wahhabi

139 - 391
حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کو بذریعہ اشتہار مناظرے کا چیلنج کر دیا کہ میرے ساتھ حیاتِ مسیح پر مناظرہ کر لیں ادھر حضرت میاں رحمہ اللہ صاحب کے شاگرد کثیر تعداد میں دہلی پہنچے۔ پنجاب سے مولانا بٹالوی رحمہ اللہ اور بھوپال سے مولانا محمد بشیر سہسوانی مرحوم بھی تشریف لے گئے۔ مناظرے کے لیے خود حضرت میاں صاحب نے مولانا محمد بشیر سہسوانی مرحوم کو منتخب کیا اور فرمایا کہ ان کی کامیابی میری کامیابی اور ان کی شکست میری شکست تسلیم کی جائے گی۔ مناظرہ تحریری طور پر طے پایا تھا۔ خود مرزا جی کی تجویز کی بنا پر فریقین نے پانچ پانچ پرچے لکھنے تھے۔ مگر ابھی تین تین پرچے ہی مکمل ہو پائے تھے کہ مرزا جی بحث کو غیر مکمل چھوڑ کر اپنے خسر کی بیماری کا بہانہ بنا کر بھاگ نکلے۔ اس مناظرہ کی روئیداد انہی دنوں ’’الحق الصریح في إثبات حیاۃ المسیح‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حیاتِ مسیح پر سب سے پہلا مناظرہ خود مرزا جی سے اہلِ حدیث کے سپوت نے کیا۔ یہی نہیں، بلکہ مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تینوں کتابوں کا سب سے پہلے جواب بھی علمائے اہلِ حدیث نے دیا، چنانچہ سب سے پہلے ۱۸۹۲ء میں مولانا اسماعیل علی گڑھی نے ایک مختصر جواب ’’إعلان الحق الصریح بتکذیب مثل المسیح‘‘ کے نام سے دیا۔ دوسرا مفصل جواب مشہور اہلِ حدیث عالم حضرت مولانا قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ مصنف ’’رحمۃ للعالمین‘‘ نے دیا، بلکہ حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ ’’ازالہ اوہام‘‘ سے پہلے ’’فتح الاسلام‘‘ اور ’’توضیح المرام‘‘ کا جواب لکھ کر مرزا قادیانی کو بھیجنا چاہتے تھے، مگر اپنے ایک دوست کے ایماء پر انھوں نے ’’ازالہ اوہام‘‘ کی طباعت کا انتظار کیا۔ اس کے شائع ہونے کے ساتھ ہی تینوں کا جواب مکمل کر کے شائع کرایا۔ یہ جواب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ ’’غایۃ المرام‘‘ کے نام سے
Flag Counter