Maktaba Wahhabi

140 - 391
۱۸۹۳ء میں شائع ہوا، جب کہ اس کا دوسرا حصہ ۱۸۹۸ء میں ’’تائید الاسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اسی دوسرے حصے میں حضرت قاضی صاحب ۔قدس اللہ روحہ۔ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی علامات بیان کرتے ہوئے ببانگِ دہل اس بات کا اعلان کیا: ’’میں نہایت جزم کے ساتھ بآواز بلند کہتا ہوں کہ حجِ بیت اللہ مرزا صاحب کے نصیب میں نہیں، میری اس پیش گوئی کو سب صاحب یاد رکھیں۔‘‘[1] ف تائید الاسلام (ص: ۱۱۶) طبع دوم یادش بخیر: ’’حیات مسیح علیہ السلام‘‘ کے موضوع پر جناب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے بھی ’’شمس الہدایۃ فی اثبات حیاۃ المسیح‘‘ اور ’’سیف چشتیائی‘‘ کے نام سے دو کتابیں لکھیں۔ پہلی ۱۳۱۷ھ بمطابق ۱۹۰۰ء میں اور دوسری ۱۳۱۹ھ بمطابق ۱۹۰۲ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ ’’سیف چشتیائی‘‘ میں انھوں نے بھی اسی قسم کا اظہار فرمایا: ’’ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ ۔زادھا اللّٰه شرفاً۔ میں حاضر ہو کر سلام عرض کرنا اور جواب سلام سے مشرف ہونا یہ نعمت قادیانی کو کبھی نصیب نہ ہو گی۔‘‘ (سیف چشتیائی، ص: ۱۳۴) لیکن ظاہر ہے کہ حضرت قاضی صاحب مرحوم یہی پیش گوئی ۱۹۰۲ء سے چار پانچ سال پہلے ۱۸۹۸ء میں کر چکے تھے۔ والفضل للمتقدم سیف چشتیائی کے بارے میں یہ بات بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ قادیانیوں کا خیال تھا کہ یہ مکمل کتاب پیر صاحب کی نہیں، بلکہ مولوی محمد حسین فیضی کی کتاب کا سرقہ ہے۔ اسی طرح پیر صاحب کی ’’شمس الہدایہ‘‘ کے بارے میں بھی قادیانیوں کا خیال رہا ہے کہ یہ مولوی محمد غازی صاحب کی تصنیف ہے جس کا اظہار مولوی فیض احمد فیضی نے مہر منیر (ص: ۲۵۲، ۲۵۶) میں کیا اور اس کی خوب تردید بھی کی۔ مگر سیف چشتیائی کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکمل حضرت پیر صاحب کی تصنیف بہرحال نہیں، کیوں کہ سیف چشتیائی کا جو ایڈیشن اس ہیچمداں کے پیش نظر ہے اس کے آخری صفحہ پر (ص: ۳۶۸) ’’اعلان طبع اول‘‘ کے عنوان کے تحت جناب محمد غازی صاحب لکھتے ہیں: ’’حضرت اقدس دام ظلہ نے شمس بازغہ و مرزا قادیانی کی تفسیر فاتحہ کے جواب میں جو اوراق تحریر فرما کر مجھے بغرض طبع عطا فرمائے تھے میں نے ان کو حسبِ ہدایت 
Flag Counter