Maktaba Wahhabi

151 - 391
تمام قدیم حکما بھی معجزات تسلیم کرتے تھے، بلکہ ان کے منکر کو قابل سزا سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں معجزات کو غیر معقول قرار دے کر معقول و منقول میں تطبیق و توفیق کی روش سب سے پہلے بو علی سینا نے نکالی ہے اور ان کے انکار میں کوئی بھی ایسی یقینی دلیل نہیں، جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ اس ضمن میں حضرت مولانا مرحوم نے طریقِ ثبوت معجزات پر بحث کر کے اس کی تکمیل کر دی ہے اور صاف صاف الفاظ میں لکھا ہے: ’’امکان معجزات سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ہر ممکن امر کو محض اس کے امکان کی بنا پر واقعہ کی صورت میں بھی نہیں منواتا، بلکہ اس کے امکان کے بعد اس کے وقوع کے لیے اس خیر کا پرکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ سچی ہے یا کیسی! سچی ثابت ہو جانے پر اس کی تسلیم و تصدیق سے اپنے خیالات و قیاسات سے جن کی بنا قصورِ فہم یا عدم علم یا نقص علم پر ہے، ان کا انکار نہ تو عقلاً صحیح اور نہ شرعاً درست ہے۔‘‘[1] واللّٰه الھادي مولانا مرحوم کے یہ الفاظ کسی وضاحت کے محتاج نہیں۔ نہ معجزے کا انکار ممکن ہے اورنہ ہی کرامات کا، لیکن اس کے وقوع اور ثبوت کا پرکھنا بہرحال ضروری ہے۔ اولیائے کرام کی طرف منسوب کرامات کا جو طوفان آج پڑھنے اور سننے میں اتا ہے، اگر ان کے وقوع کے بارے میں تیقن کے مسلمہ اصول کو اپنا لیا جائے تو بہت حد تک یہ مسئلہ سلجھ سکتا ہے۔ اہل اللہ کے نزدیک اصل استقامت ہے کرامت نہیں۔ وہ کرامات کا اخفا پسند فرماتے، بلکہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جب کوئی اہل اللہ کی کرامتوں سے کسی کرامت پر مطلع ہو جاتا تو اسے قسم دلاتے
Flag Counter