Maktaba Wahhabi

153 - 391
دعویٰ کرتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا ﴾ [الأحزاب: ۶۲] ’’تو اللہ کے طریقے میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘ اسی بنیاد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ پیدا ہونا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانے کا انکار ہے کہ یہ انسان کے بارے میں جو ’’سنۃ اللّٰه ‘‘ ہے، اس کے خلاف ہے۔ حضرت سیالکوٹی رحمہ اللہ نے مقدمہ ثانی میں اس اصطلاح ’’سنۃ اللہ‘‘ کی وضاحت کی ہے اور قرآن پاک میں جہاں جہاں یہ الفاظ آتے ہیں، ان کے تناظر میں اس عقدہ کی گرہ کشائی کی ہے کہ اس سے مراد انبیائے کرام علیہم السلام کی نصرت اور ان کے مقابلے میں دشمنوں کی تباہی و بربادی مراد ہے، پھر کسی معاملے کو خود ہی ’’سنۃ اللّٰه ‘‘ باور کر لینے سے یہ کیسے لازم آ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی یہی ’’سنۃ اللّٰه ‘‘ ہے۔ دعویٰ بلادلیل قابلِ سماعت نہیں۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے اسرار و رموز اور اس کے نظام کو نہ کامل دلی طور پر سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ان کا احاطہ کر سکتا ہے تو پھر بلادلیل کسی نظام کو سنۃ اللہ قرار دینا کیونکر درست ہو سکتا ہے۔ مقدمہ ثالث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیات پر بحث ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ذاتِ بابرکات ولادت سے لے کر آسمان پر اٹھائے جانے تک سراپا معجزات خوارق پر مبنی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں ’’آیۃ‘‘ اور ’’مثلاً‘‘ قرار دے کر اپنی قدرتِ کاملہ کا نشان قرار دیا ہے۔ ان کی ’’ولادت‘‘ بچپن میں حکیمانہ تعلیم فی المہد، ان کے معجزات ، رفع آسمانی اور آسمان سے نزول سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے نشانات ہیں۔ ایک مومن صادق کے لیے جس طرح پہلی تین حقیقتیں واقعی ہیں، اسی طرح اس کے لیے آخری دونوں باتوں سے انکار کی گنجایش بھی نہیں رہتی۔ مگر ہدایت اللہ سبحانہ و تعالیٰ
Flag Counter