Maktaba Wahhabi

154 - 391
کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴾ [البقرۃ: ۲۶] ان تینوں مقدمات کے بعد ’’تنبیہ‘‘ میں اثبات مدعی کے لیے حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اپنے ماخذ کو بیان کیا ہے اور وہیں قرآن، حدیث اور لغت عرب۔ اس لیے انھوں نے قرآن پاک کی آیات کی تفسیر و تعبیر میں جابجا حضرات مفسرین رحمہم اللہ کے اقوال کو بھی اپنی تائید میں پیش کیا ہے، اس تائید کی ضرورت کیا تھی، اس کا ایمان افروز جو اب خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں: ’’مفسرین کے اقوال صرف اس لیے ذکر کیے ہیں کہ زمانہ جہالت میں کفرانِ نعمت کی صفتِ مذموم بڑھتی جاتی ہے۔ بنا براں بعض مصنف تو تحقیقات کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مآخذ کا پتا نہیں بتاتے اور بعض ائمہ مفسرین کے اقوال کو نظر عزت سے نہیں دیکھتے، لیکن خاکسار دونوں امروں میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں۔ جس امر کو کسی کتاب سے لکھ لیا ہے۔ اس کا نام لکھ دیا ہے اور مفسرین کے جس قول کو اختیار کیا ہے، اس کی تائید قرآن و حدیث یا لغت عرب یا قواعدِ علمیہ سے کر دی ہے۔ پس جب قدر ناشناس لوگ سلف صالحین کے اقوال کو قرآن و حدیث اور لغت عرب اور قواعدِ علمیہ سے موید پائیں گے تو ان شاء اللہ بدظنی دور ہو جائے گی۔ دوسرے اس غرض کے لیے کہ اپنے موافقین کو زیادہ اطمینان حاصل ہو اور اپنے پر سے ظن تفسیر بالرائے دور ہو جائے، تیسرے اس لیے کہ نازک خیالی کے مدعی جو حقیقت میں تفسیر بالرائے کرتے ہیں۔ جان لیں کہ وہ سلف صالحین اور متقدمینِ اسلام کے
Flag Counter