Maktaba Wahhabi

181 - 391
کی بات کو تسلیم کیا اور ہم سب شہداد پور روانہ ہو گئے، وہاں شاہ صاحب کے دیرینہ دوست حکیم عبدالمجید صاحب تھے۔ فون پر پیشگی انھیں آمد کی اطلاع دے دی گئی، مغرب کے قریب ہم وہاں پہنچے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھانا کھایا۔ اس کے بعد اصل مسئلے پر گفتگو شروع ہوئی۔ بڑی بحث و تمحیص کے بعد حکیم صاحب نے وفد سے تعاون کا مشورہ دیا اور یہ وفد بامراد اگلے روز واپس پلٹا۔ اس وفد کے سارے معزز ارکان ایک ایک کر کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکے، اللہ تعالیٰ انھیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔ یہ عاجز اس وفد میں سب سے خورد بلکہ طفلِ مکتب تھا۔ حضرت شاہ صاحب سے تعلق و محبت کے باعث مجھے اس وفد کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ ان باتوں کا بھی احباب جماعت میں سے کسی کو علم نہیں کہ حضرت شاہ صاحب مرکزی جمعیت کے امیر کیسے اور کیوں کر بنے؟ مناسب سمجھا کہ اس حقیقت کا اظہار کر دیا جائے اور اس سلسلے میں جن حضرات نے کوشش کی اسے صفحۂ قرطاس پر محفوظ کر دیا جائے۔ اس کے بعد تمام جمعیتی رفقا کے علم میں ہے کہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں اجلاس ہوا۔ حضرت شاہ صاحب کو اجلاس میں شمولیت سے روکنے کی کوشش بھی ہوئی، مگر وہ بے کار ثابت ہوئی۔ اس سلسلے میں راقم اجلاس سے پہلے بطور تائید حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔بلکہ اس کے لیے حضرت سید محب اللہ شاہ صاحب کی خدمت میں بھی پہنچا، انھوں نے بھی اجلاس میں آنے کا وعدہ فرمایا۔ شاہ صاحب تو حسبِ پروگرام پہلے پہنچ گئے، مگر حضرت سید محب شاہ صاحب گاڑی لیٹ ہونے کی بنا پر اجلاس کے بعد گوجرانوالہ پہنچے۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب امیر منتخب ہوئے اجلاس کے اختتام پر انھوں نے بڑا مؤثر خطاب فرمایا، جس میں تمام منتخب ارکان سے
Flag Counter