Maktaba Wahhabi

185 - 391
کے انداز میں لکھا تھا۔ راقم نے اس کی پوری قراء ت حضرت شاہ صاحب پر کی۔ اس کے لیے میں ان کی خدمت میں نیو سعید آباد حاضر ہوا۔ ان کی شفقت تھی کہ تمام مصروفیات چھوڑ کر اسی کام میں مشغول ہو گئے۔ دورانِ قراء ت انھیں حیدر آباد جانا ہوا تو میں فکر مند ہو گیا کہ معلوم نہیں آپ کب واپس تشریف لائیں گے اور یہ قراء ت کب مکمل ہو گی؟ میری فکر مندی کا احساس پا کر انھوں نے اپنے ساتھ ہی چلنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ مسودہ بھی ساتھ لے چلو۔ چنانچہ انھوں نے مجھے اپنے پاس سیٹ پر بٹھا لیا اور سفر کے دوران اس کی قراء ت کی۔ حیدر آباد سے واپسی پر بھی ایسا ہی ہوا اور یوں اس کا کافی حصہ دورانِ سفر پڑھا جا سکا۔ دورانِ قراء ت انھوں نے بعض مقامات پر ترمیم و اضافہ کا اشارہ فرمایا جسے حسبِ حکم درست کر لیا گیا۔ میرے اس جواب کی بھنک حضرت مولانا نعمانی مرحوم کو پڑ گئی تھی۔ نہیں معلوم کہ کیسے انھیں اس کا علم ہوا۔ حضرت مولانا سید ابو بکر غزنوی (نور اللہ مرقدہ) کے جنازے پر المکتبۃ السلفیہ میں تشریف فرما تھے کہ ان سے تعارف ہوا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اسی میں انھوں نے فرمایا: اچھا یہ ہیں اثری صاحب! جنھوں نے ابن ماجہ اور علمِ حدیث کا جواب لکھا ہے۔ اللہ کرے ہماری زندگی میں چھپے اور ہم بھی دیکھ لیں۔ مگر تاحال وہ مسودہ جوں کا توں پڑا ہے۔ ایک بار ادارہ علوم اثریہ میں ادارے کے تصنیفی کام کے حوالے سے میٹنگ ہوئی، جس میں دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ صاحب، حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا ابو حفص عثمانی مرحوم بھی تھے۔ دیگر پروگرام کے علاوہ اس جواب کا بھی ذکر آیا تو حضرت شاہ صاحب نے اسی صورت میں اس کی طباعت کا مشورہ دیا۔ مگر مولانا عطاء اللہ صاحب نے فرمایا کہ یہ سارا مواد ’’امام مالک اور علمِ حدیث‘‘ کے عنوان سے
Flag Counter