Maktaba Wahhabi

192 - 391
میں ہندوستان سے اور دوسری بار ۱۳۸۳ھ میں پاکستان سے شائع ہوا۔ جس سے انھوں نے اعلاء السنن کے مقاصد کے مطابق حنفی اصول کو متعارف کرانے کی سعیِ بلیغ کی۔ اس کے بعد اسی کتاب کو ان کے تلمیذِ رشید شیخ عبدالفتاح ابو غدہ مرحوم نے انہی کی اجازت سے اس کا نام ’’قواعد في علوم الحدیث‘‘ رکھا اور بڑے تفصیلی حواشی سے اسے ۱۳۹۲ھ بمطابق ۱۹۷۲ء میں شائع کیا۔ کسی کتاب کی خدمت اور اس کی متعلقات کی تائید و حمایت یا نقد و تنقید ہر دور میں اہلِ علم کا شیوہ رہا ہے۔ مگر انہاء السکن کی بجائے اسے قواعد فی علوم الحدیث کے نام سے متعارف کرانا بہرنوع محل بحث ہے۔ اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ مولانا عثمانی مرحوم نے اس میں جابجا ’’اصلنا‘‘، ’’عندنا‘‘، ’’أصحابنا‘‘، ’’فقھائنا‘‘ کہہ کر اپنے حنفی اصول کا دفاع کیا ہے، بلکہ ایک جگہ تو صاف طور پر لکھتے ہیں: ’’إن لھم أي للحنفیۃ في الحدیث أصولا کما أن للمحدثین أصولاً فلا لوم أن خالفناھم في قبول بعض الأحادیث والعمل بہ وترک العمل بغیرہ‘‘[1] احناف کے حدیث میں اصول ہیں، جس طرح محدثین کے اصول ہیں۔ اس لیے بعض روایات کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے اور اس کے خلاف پر عمل کرنے پر اگر ہم محدثین کی مخالفت کرتے ہیں تو اس پر طعن و ملامت نہیں ہونی چاہیے۔ اس قدر صراحت کے باوجود بھی اگر شیخ ابو غدہ انہاء السکن کے بجائے اس کا نام قواعد فی علوم الحدیث رکھتے ہیں تو یہ برعکس نام نہنگی کافور کا مصداق ہے۔ اسی انہاء السکن کا جواب حضرت شاہ صاحب نے ’’إنما الزکن في تنقید
Flag Counter