Maktaba Wahhabi

193 - 391
إنہاء السکن‘‘ کے نام سے لکھا۔ مگر افسوس کہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے یہ جواب کہاں اور کب لکھا۔ مکہ مکرمہ میںقیام کے دوران میں یا پاکستان میں۔ البتہ راقم نے ہی انہاء السکن کو ۱۸ شوال ۱۳۹۳ھ میں نقل کیا جو بحمد اللہ میرے ہاں محفوظ ہے۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں تشریف لے جانے سے عرصہ پہلے وہ اس کی تکمیل کر چکے تھے۔ فضیلۃ الشیخ العلامہ صلاح الدین مقبول احمد حفظہ اللہ نے جب اس کی طباعت کا اہتمام کیا تو حضرت شاہ صاحب کی اجازت سے ’’انہاء السکن‘‘ کی بجائے اس کا نام ’’نقض قواعد في علوم الحدیث‘‘ رکھا اور اسے ۲۰۰۳ء میں زیورِ طبع سے آراستہ کر کے شائقین کے ہاتھوں ہاتھ پہنچانے کی سبیل پیدا کر دی۔ جزاہ اللّٰه أحسن الجزاء۔ اسی ’’نقض‘‘ کے مقدمہ (ص: ۴۸) میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۱۳۹۰ھ یا ۱۳۹۱ھ میں حضرت شیخ حافظ فتح محمد جو علما کے مابین حافظ فتحی کے نام سے معروف تھے اور مکہ مکرمہ قیامِ پذیر تھے۔ نے حضرت شاہ صاحب کو انہاء السکن کے جواب کا احساس دلایا اور انہی کے مشورے سے انھوں نے اس کا جواب لکھا۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے یہ جواب کوئی بڑے طویل عرصہ میں نہیں، بلکہ یہی کوئی چھے ماہ سال کے اندر اندر مکمل کیا۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ جواب گو اختصار سے لکھا، مگر امرِ واقع یہ ہے کہ مولانا ظفر احمد عثمانی کے تمام تر مغالطات اور محدثین کے اصول کے برعکس حنفی اصول اور اس کے تحفظات کو طشت ازبام کردیا۔ جس کا اندازہ ہر منصف مزاج قاری کر سکتا ہے اور اسی سے حضرت شاہ صاحب کی وسعت معلومات اور ان کے حفظ و ضبط کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا عثمانی نے ایک اصول ذکر کیا ہے کہ جارح خود مجروح ہو تو اس
Flag Counter