کی راوی پر جرح جب کوئی اس کی موافقت کرنے والا نہ ہو مردود ہو گی۔ اس کی تائید میں انھوں نے میزان الاعتدال سے ابان بن اسحاق المدنی کے ترجمے کا حوالہ دیتے ہوئے علامہ ذہبی سے نقل کیا ہے کہ امام ازدی نے اپنی کتاب میں ایسے متعدد راویوں کو ضعیف کہہ دیا ہے، جن پر کسی نے کلام نہیں کیا اور ازدی خود متکلم فیہ ہیں۔ (قواعد في علوم الحدیث، ص: ۱۷۸) حضرت شاہ صاحب علامہ ذہبی کے اسی بیان پر لکھتے ہیں:
’’أقول: والذھبي نفسہ یقبل کلامہ (أي کلام الأزدي) وجرحہ في مواقع کما لا یخفی علی من طالع ’’میزانہ‘‘، وقد اکتفی علی نقل الجروح عن الأزدي دون غیرہ في کثیر من الرجال، ومن شرطہ أن یتعقب إذا کان الجرح غیر مقبول کما بینہ في المقدمۃ، کبشر بن غالب وبشر بن بشر وبکار بن زکریا وبکر بن صالح وبکر بن محمد وبلال بن عبید العتکي وتغلب بن ضحاک وثابت بن عبید اللّٰه وثابت بن عطیۃ وثعلبۃ الحمصي وجابر بن سلیم وضاح (جناح) مولی الولید وحباب بن جبلۃ الدقاق وحجاج بن سنان والحسن بن محمد بن عثمان الکوفي والحسین بن زیاد وداود بن إبراہیم العقیلي ودھثم بن جناح وشعیب بن عمر الطحان وجماعۃ لا یحصون، اکتفی فیھم بکلام الأزدي ولم یتعقب أصلاً وذلک لأنہ لم یعارضھم توثیق فالتفصیل في الباب ما ذکرنا‘‘[1]
|