Maktaba Wahhabi

217 - 391
ان حالات کی خبر تھی، ایک بار فرمایا کہ اس کی طباعت میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ادارہ کے منتظمین اگر اتفاق کریں تو اس کی کتابت کروا لی جائے۔ کتابت پر جو خرچ اٹھے گا، میں ادا کر دوں گا۔ مگر اس کے بعد جلد ہی ٹائپ پر شائع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا فرما دیے۔ اس سے آپ احادیثِ پاک اور مسلکی کتابیں شائع کرنے میں ان کے جذبات کی معراج کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ کہاں تک لکھوں، اس سلسلے میں ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ع سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے ادارۃ العلوم الاثریہ کی بات آئی ہے تو انتہائی ناسپاسی ہو گی اگر میں اس بات کا اظہار نہ کروں کہ خود ادارہ کے وجود اور اس کے اشاعتی پروگرام میں بہت کچھ عمل دخل آپ کے مشوروں کا بھی تھا، عموماً قارئین بلکہ ان کے متوسلین بھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ حضرت مولانا ایک دور میں اپنے آپ کو ’’الاثری‘‘ لکھتے تھے۔ چنانچہ ۱۳۵۶ھ میں جب آپ نے رسالہ ’’رَدع الانام عن محدثات عاشر المحرم الحرام‘‘ لکھا تو اس کے آخر میں ’’حنیف‘‘ نسبت کے بجائے ’’محمد عطاء اللہ الاثری الفوجیانی‘‘ لکھا۔ ممکن ہے کہ ادارہ سے ان کی دلچسپی اسی پرانی نسبت ہی کی صدائے بازگشت ہو۔ ادارہ کی کارکردگی اور اس کی علمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے جن حضرات کی خدمات حاصل رہیں، ان میں ایک حضرت مولانا مرحوم بھی تھے۔ ۱۹۷۲ء میں جب اس عاجز نے مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی کی کتاب ’’ابن ماجہ اور علمِ حدیث‘‘ کا جواب مکمل کیا تو ایک مجلس میں مولانا مرحوم ہی نے فرمایا کہ قدیم طرز سے ہٹ کر ان سارے مباحث کو ’’امام مالک اور علمِ حدیث‘‘ کے عنوان کے تحت سمیٹا جائے، جس کی تمام حضرات نے تائید کی۔ چنانچہ اسی روشنی میں کام کا آغاز تو کر دیا، مگر افسوس کہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
Flag Counter