Maktaba Wahhabi

243 - 391
لکھا اور کہاں لکھا اور وہ مطبوع ہے یا مخطوط اور اس کا نسخہ کہاں پایا جاتا ہے اور یہ وصف حضرت مولانا رحمہ اللہ میں ایسا کمال درجہ کا پایا جاتا تھا، جس کا اعتراف اپنوں بلکہ بیگانوں کو بھی تھا۔ حضرت مولانا زبیدی حفظہ اللہ تو تفنن طبع کے طور پر فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ تو ’’اہلِ کتاب‘‘ تھے۔ ایک مرتبہ انہی کے شاگرد رشید جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی سے میں نے دریافت کیا کہ آپ لاہور کی لائبریریوں بالخصوص پنجاب پبلک لائبریری میں اکثر آیا جایا کرتے ہیں۔ وہاں احادیثِ پاک کے متعلق بھی کوئی نادر چیز موجود ہے یا نہیں تو انھوں نے برجستہ فرمایا: اس کے متعلق تم حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب سے دریافت کرو۔ انھیں اس سلسلے میں جتنی معلومات ہیں وہ وہاں کے شاید لائبریرین حضرات کو بھی حاصل نہ ہوں۔ کشف الظنون اور اسی موضوع کی دوسری کتب کو عموماً پیش نگاہ رکھتے اور جب کوئی نئی کتاب طبع ہو کر آتی تو اس کے مباحث کی فہرست کے ساتھ ساتھ مراجع و مصادر کی فہرست اولین فرصت میں دیکھتے اور نادر کتابوں پر نشان لگاتے جاتے۔ اسی طرح مطالعہ کتب کے دوران بھی کسی اہم کتاب کا ذکر آتا تو پہلے صفحہ پر اسے درج کر لیتے اور اس کی تصدیق ہر وہ صاحب کر سکتے ہیں، جنھوں نے حضرت مولانا رحمہ اللہ کی لائبریری سے استفادہ کیا ہے۔ اسی حسنِ ذوق اور اس موضوع پر ان کی وسعتِ معلومات کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ علامہ السیوطی رحمہ اللہ جیسے وسیع النظر نے ’’زہری الربی‘‘ کے مقدمہ میں لکھ دیا ہے کہ سنن نسائی کو لکھے ہوئے چھے سو سال سے زائد طویل عرصہ گزر گیا، مگر آج تک اس کی کوئی شرح یا اس کا حاشیہ نہ لکھا گیا۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’منذ صنف أکثر من ستمائۃ سنۃ ولم یشتھر علیہ من شرح ولا تعلیق‘‘ اور انہی کی اقتدا میں بعض حنفی علما نے بھی یہی بات کہہ دی کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے پہلے کسی نے اس کی
Flag Counter