Maktaba Wahhabi

244 - 391
شرح نہیں لکھی، مگر ہمارے مولانا رحمہ اللہ نے اپنی وسیع معلومات کی بنا پر ثابت کیا کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ خیال درست نہیں۔ جب کہ ’’نیل الابتھاج بتطریز الدیباج‘‘ میں علامہ ابو الحسن علی بن عبداللہ الانصاری الاندلسی المعروف بابن النعمۃ المتوفی ۵۶۷ھ کے ترجمہ میں لکھا ہے: ’’إنہ صنف تالیف مفیدۃ جلیلۃ منھا ’’الإمعان في شرح سنن النسائي أبي عبد الرحمٰن‘‘ لم یتقدمہ أحد لمثلہ بلغ فیھا الغایۃ احتفالاً وإکثاراً‘‘[1] ’’علامہ ابو الحسن الاندلسی نے ’’الإمعان في شرح سنن النسائي أبي عبد الرحمٰن‘‘ کے نام سے ایک بڑی مفید کتاب لکھی ہے۔ ان سے پہلے ان جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی، جس میں انھوں نے بڑی تفصیل اور کثرت سے بحث کی ہے۔‘‘ علامہ محمد منیر الدمشقی نے ’’نموذج من الأعمال الخیریۃ‘‘ میں بھی اس شرح کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ملا کاتب چلپی نے کشف الظنون میں اس کا ذکر نہیں کیا اور اب اس کا کوئی نسخہ بھی دستیاب نہیں۔ علامہ اندلسی کے علاوہ حافظ محمد بن علی الدمشقی المتوفی ۷۶۵ھ نے بھی سنن نسائی کی شرح لکھی۔ جس کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الدرر الکامنہ (۴/۶۲) میں کیا ہے۔ الغرض علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بایں وسعتِ نظر جو دعویٰ کیا تھا اس کے برعکس حضرت مولانا رحمہ اللہ کا سنن نسائی کی دو شرحوں کا سراغ لگا لینا اس موضوع پر ان کی گہری معلومات کی بین دلیل ہے۔ کتابیات کے بارے میں ان کی وسعتِ نظر کا
Flag Counter