Maktaba Wahhabi

317 - 391
لطف کی بات یہ ہے، جیسا کہ راقم نے ذکر کیا، مولانا عبدالغفار حسن مرحوم نے اس عبارت پر بھی پنسل سے نشان لگایا ہے۔ مولانا اصلاحی نے ’’احادیث سے استفادہ‘‘ کے عنوان سے محدثین اور ان سے وابستہ حضرات پر جو طنز و تعریضات کیں اور انھیں ’’تخرب‘‘ اور ’’یک چشمی‘‘ کا طعنہ دیا اور جمع احادیث میں متاخرین کی کوششوں پر جو حرف گیری کی اس کے جواب میں مولانا سلفی مرحوم نے یہ بھی لکھا: ’’جناب کے دو تین بزرگ ایسے موجود ہیں، جنھوں نے اہلِ حدیث کے ہاں تعلیم پائی ہے۔ ان سے دریافت فرمائیے کہ جماعت اسلامی میں شمولیت سے پہلے کبھی انھوں نے اندھا دھند احادیث کو بلا تحقیق قبول فرمایا؟ یا موضوع اور مقلوب روایات کو قابلِ عمل سمجھا؟ اب اگر جماعتی عصبیت ان کے اذہان پر غالب نہیں آگئی تو وہ آپ کو بتلائیں گے کہ اہلِ حدیث میں بحمد اللہ یہ دھاندلی نہیں ہے، بلکہ ائمہ جرح و تعدیل اور اہل نقد و نظر کے افکار سے استفادہ یہاں کا شعار ہے۔‘‘[1] اسی قسم کے اشارات (صفحہ: ۱۲۶،۱۵۳) پر بھی ہیں۔ لیکن تنقید حدیث کے حوالے سے علامہ شبلی اور مولانا مودودی کی عقل پرستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت سلفی مرحوم نے حضرت مولانا عبدالغفار حسن (نور اللہ مرقدہ) کے جد امجد مولانا عبدالجبار عمر پوری رحمہ اللہ کی خدمات کا بھی تذکرہ کیا۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت موصوف لکھتے ہیں: ’’تنقید حدیث کے متعلق آج تک جو کچھ ہے عقلی ہو یا نقلی، روایات کے نقطۂ نظر سے ہو یا درایت کے لحاظ سے، سب ائمہ حدیث کی مساعی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ میرا ہی خیال نہیں بلکہ آج سے چند سال قبل مولانا
Flag Counter