Maktaba Wahhabi

335 - 391
6. ابن ماجہ میں ’’باب الوضوء بماء البحر‘‘ کے تحت حدیث نمبر ۳۸۸ کے بعد امام ابو الحسن القطان کی زیادات میں یہ بھی ہے: ’’حدثنا علي بن الحسن الھستجاني ثنا أحمد بن حنبل‘‘ اور مولانا جانباز صاحب نے فرمایا ہے: مجھے علی بن الحسن کا ترجمہ نہیں ملا۔ مجھے اولاً یہ عرض کرنا ہے کہ اکثر مطبوعہ نسخوں میں یہاں اسی طرح ’’الھستجاني‘‘ نسبت سے لکھا گیا ہے۔ البتہ ’’بیت الافکار الدولیۃ‘‘ سے جو نسخہ شائع ہوا ہے، اس میں اس کی تصحیح کر دی گئی ہے کہ یہ ’’الھسنجاني‘‘ ہے، یعنی سین کے بعد ن ہے، ت نہیں۔ اور الانساب (۵/۶۴۲) میں یہ نسب موجود ہے۔ ثانیاً راوی کا ترجمہ الجرح والتعدیل (۶/۱۸۱) تاریخ اسلام للذہبی (۱۸/۴۰۰) طبقات الحنابلہ (۱/۲۲۳) اور المنہج الاحمد (۱/۴۲۶) میں موجود ہے۔ 7. ابن ماجہ کے ’’باب التغلیط في التخلف عن الجماعۃ‘‘ میں حدیث نمبر ۷۹۵ کے تحت مولانا جانباز صاحب نے علامہ البوصیری کے حوالے سے نقل کیا ہے: ’’قال البوصیري ھذا إسناد ضعیف لتدلیس الزِبرقان بن عمرو لم یسمع من الولید بن یزید بن الولید بن مسلم وعثمان لا یعرف حالہ‘‘ الخ (انجاز الحاجۃ: ۳/۵۱۵) علامہ بوصیری کی ’’مصباح الزجاجہ‘‘ (۱/۱۶۹) میں بلاشبہ یہ عبارت اسی طرح منقول ہے، حالانکہ الزبرقان بن عمرو نہ مدلس ہے اور نہ ہی ’’الولید بن یزید بن الولید بن مسلم‘‘ سند میں کوئی راوی ہے، بلکہ الولید بن مسلم ہے۔ بلاشبہ ناقل پر صحتِ نقل ہی لازم ہے، مگر یہاں تو سرے سے سند کی ایسی کوئی بات نہیں، بلاتامل انھوں نے یہ عبارت لکھ دی، جو بہرحال حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ حال ہی میں
Flag Counter