Maktaba Wahhabi

152 - 285
" خُذْ مِنْهَا " اس سے وہ لے لو۔ توسیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے وہ ( حق مہر وغیرہ) لے لیا وہ اپنے گھر جابیٹھیں ۔[1] یہ الفاظ مؤطا اور نسائی کے ہیں اور بخاری ومسلم میں اس طرح ہے۔کہ سیدناثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا اے اللہ کے رسول میں اس کےدین واخلاق پر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرتی،میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی،توآپ نے فرمایا۔ " أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ " کیاتوا س کا باغ اس کو واپس کرتی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول توآپ نے سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ "اقْبَلِ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً "[2] اپنا باغ قبول کرلے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔اور جو پہلی حدیث میں ہے کہ ’’ وہ اپنے گھر میں بیٹھ گئی ‘‘ تو کہاجاتا ہے کہ یہ الفاظ محدث کے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کی رہائش خلع سے پہلے اپنے ہی گھر میں ہو۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ خاوند کا گھر چھوڑ کر اپنے گھر میں اس لیے بیٹھ رہی ہو کہ ان دونوں کے درمیان اوراس کے اہل کے درمیان کوئی شرارت نہ اٹھ کھڑی ہویاکوئی دیگر عذر ہو۔ کتاب ابن منذر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا۔ یہی مسلک سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا ہے،ابن منذر بھی یہی کہتے ہیں اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ وہ مطلقہ کی طرح تین قروء عدت گزارے۔ مصنف ابن سکن میں ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کومارا اور اس کا ہاتھ توڑدیا۔وہ سیدہ حبیبہ بنت عبداللہ بن ابی تھی تواسے اس کا بھائی لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کرنے آیا،آپ نے سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کو بلاکر فرمایا۔
Flag Counter