Maktaba Wahhabi

211 - 285
اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک اور حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے انہیں وہاں اس شرط پر ٹھہرایا کہ وہ وہاں کام کریں اور پھل کانصف حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیاکریں [1] اور اس میں دلیل ہے کہ زمین کامالک کام کرنے والے کی مدد بالکل نہ کرے،اور سفید زمین کے لیے بیج مہیا نہ کرے۔ امام مالک نے کہامساقات ہراس اصل میں جائز ہے جوپھل دیتی ہو۔جیسے کھجوریں ،انگور،انجیر م زیتون،انار فرلک،اخروٹ،بادام،گلاب وغیرہ ہیں ۔ا ور جتنے حصہ پر وہ دونوں اتفاق کرلیں وہ درست ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مساقاہ صرف نصف کے طور پر کھجوروں اور انگوروں میں جائز ہے کیونکہ اسی پرخراص اور اندازہ ہے۔ امام شافعی کا ایک قول بھی ہے کہ مساقاۃ ہرا صل ثابت میں درست ہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مساقاۃ کو بالکل ناجائز قراردیاہے کیونکہ اس میں مجہول اجرت ہےا ور مزدوری کا پتہ نہیں چلتا اور اس مسئلہ میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وسیدنا عمررضی اللہ عنہما کی مخالفت کی کیونکہ انہوں نے تویہود سے اس طرح کامعاملہ کیاتھا،انہوں نے دلیل یہ لی ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تویہودی غلاموں کی طرح ہوگئے ااور مالک اور غلام میں وہ معاملہ بھی جائز ہوتاہے جوکسی اجنبی سے درست نہیں ہوتا۔لیکن یہ بات ان کےخلاف دلیل ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں وہاں ٹھہرے رہے پھر انہیں سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے جلاوطن کردیا،نہ ان کوبیچا اور نہ آزاد کیا اور نہ ہی کسی اہل حدیث نے آپ سے یہ روایت کیاہے کہ آپ نے ان سے جزیہ لیاہو،مگر سورہ توبہ کانزول بعد خیبر کے ہوا جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان سے جزیہ لیا۔واللہ اعلم۔ اور امام شافعی نے جوکھجوروں او ر انگوروں میں مساقاۃ کودرست قرار دیاہے،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس کے خلاف تھا کیونکہ آپ نے یہود خیبر سے یہ معاملہ کیاتھا کہ خیبر
Flag Counter