Maktaba Wahhabi

226 - 285
سے مشروط کیاجائے اور مدینہ میں اس پر عمل جاری ہے،امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔ا بن ابی زید کی بات ختم ہوگئی۔ امام شافعی وغیرہ نے حدیث مذکور کی یہ تاویل کی ہے کہ عمری جب عمری دیےگئے شخص کو اورا س کے پچھلوں کو دیاجائے تو وہ عمری دینے والے کی طرف واپس نہیں ہوتا،اگر چہ عمری دیاگیا شخص اور اس کے پچھلوں میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے،مگر یہ بات حدیث میں لکھی ہوئی نہیں ہے،ابوحنیفہ،شافعی،سفیان ثوری اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ سے مروی ہے کہ عمری (صدقہ) ہبہ کی طرح ہے،یہ جس کودیاجائے وہ اس کا مالک بن جاتاہے چاہے پچھلوں میں سے کوئی ہویا نہ ہو اور چاہے دینے والا شرط لگائے یا نہ لگائے ا ور یہ شرط بالکل ہوجائے گی اور کبھی بھی وہ واپس نہیں ہوسکتا اور اپنے دیگر مال کی طرح عمری دیاگیا شخص اس کو فروخت بھی کرسکتا ہے۔ توعمری میں تین اقوال صحیح ثابت نہیں ۔پہلا ابوحنیفہ،شافعی،مالک اور دوسرا جوان کے ساتھ ذکر کیے جاتےہیں جس طرح طارق نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر فیصلہ کیا اور تیسرا قول اس شخص کاہے جوپیچھے رہنے والوں میں اور عمری دیے گئے کی زندگی والا فرق کرتا ہے تو معقبہ یعنی جو پچھلوں کےلیے ہواس کے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی دینے والے کی طرف واپس ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ کیا تھا مگر مسلم کی ایک روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک عورت نے مدینہ میں رہتے ایک بیٹے کو ایک باغ دیاتو وہ فوت ہوگیا اور اس کے بعد وہ خود فوت ہوگئی،ا ولاد بھی اور مرد کے بھائی بھی تھے،ا س عورت کی اولاد نے کہا کہ یہ عطیہ باغ کا ہماری طرف واپس آگیا،عمری دیے گئے کی اولاد نے کہا کہ یہ ہمارے باپ کا باغ اس کی زندگی میں تھا اور موت کے بعد بھی اسی کا ہے تو یہ جھگڑا طارق،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مولی کے پاس چلاگیا،ا نہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کوبلایا اور پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے متعلق گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمری کے
Flag Counter