Maktaba Wahhabi

228 - 285
نے کہا اے اللہ کے رسول یہ میرا بھتیجا ہے عبد بن زمعہ نے کہا میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمَعَةَ" اے عبد بن زمعہ یہ لڑکا تیرا ہے،پھر آپ نے فرمایا" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ،وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ" بچہ بچھونے والے کا اور زانی کے لیے پتھر ہیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود ہ بنت زمعہ کو حکم دیا کہ اس سے پردہ کرنا کیوں کہ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ اس کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص سے ہے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر اس کو سودہ رضی اللہ عنہا نے اس کے مرنے تک نہیں دیکھا[1] اور المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی وصیت کرنا جائز ہے کیونکہ عتبہ بن ابی وقاص کافر تھا،اسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے رباعی دانت توڑے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف بدعا سال گزرنے سے پہلے کفر کی حالت میں موت سے دوچار ہو تو ایک سال گزرنے سے پہلےپہلے یہ مر گیا۔یہ بات عبدالرزاق نے اپنے منصف میں ذکر کی ہے،اسی طرح ابن ابی حثمہ نے بھی ذکر کیاہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنے مشتبہ ( ہم شکل ) بھائی کو اپنے نسب میں شامل کر سکتا ہے اور بیٹے کو اپنے ساتھ ملانے میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ۔ اس حدیث میں برائی کے ذرائع کاٹ دینے کے حکم کے متعلق امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی ہے کہ حرام میں واقع ہوجانے کے ڈر سے مباح سے بھی منع کیاجائے جس طرح اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں : ﴿ولَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ﴾ (ا لنور : 31) عورتیں اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت معلوم ہو۔یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع فرمادیا کہ تم " راعنا " نہ کہو حالانکہ وہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر چونکہ یہودی اس سے "یاارعن " یعنی ’’ اے بیوقوف‘‘
Flag Counter