Maktaba Wahhabi

232 - 285
مصنف کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں ہے کہ آپ نے ان کے تین حصے کیے جن میں سے دو کوآزاد کردیا اور چار کوغلام ہی رہنے دیا۔[1] اسماعیل نے کہا یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قیمت لگائی،سلیمان بن موسیٰ کہتے ہیں مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قیمت لگائی،اگرسلیمان کی یہ بات صحیح بھی ہوجائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان کی قیمت اگر برابر ہوتو ٹھیک،ورنہ ان کی قیمت لگائی جائے تاکہ وصیت تہائی سے زیادہ نہ ہوجائے اور پہلی حدیث مسلم میں محمد بن سیرین سے مروی ہے وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سےمسنداً روایت کرتے ہیں ۔ اس حدیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ( پورے مال کے ) ثلث میں وصیت کو نافذ کرنا چاہیے،ا س سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ایسے موقع پر قرعہ اندازی سے آزادکرنا درست ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جوشخص ثلث کا کفیل ہے،تووہ ثلث کی طرف وصیت کو پھیردے،ا س سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مرض ا ور بیماری میں آزادی کوکاٹنا ا ور ختم کرنا وصیت کرنے کی طرح ہے۔ا س سے یہ بھی معلوم ہواکہ جہاں حاکم خود موجود ہو وہاں وہ خود ہی مال کی قیمت لگائے کسی اور کوکچھ بھی سرپرستی نہ دے۔ا س سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلام اپنے حقوق جواس کے مالک کے ذمہ ہیں ان کےحصول کے لیے کسی کو دعوت دے تو وہ شخص ان دونوں میں فیصلہ کرسکتاہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ تہائی کی وصیت قرابت کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی درست ہے،مگرطاؤس وغیرہ اس کےخلاف ہیں کہ جو شخص رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور کےلیے وصیت کرے اور رشتہ داروں کے لیے نہ کرے تو اس کی وصیت باطل نہیں ہوگی اور بعض نے کہا ا گر غیر قرابت میں وصیت کرے توتہائی وصیت قرابت والوں کو دی جائے گی۔
Flag Counter