Maktaba Wahhabi

96 - 285
اے ابوقتادہ کیابات ہے۔ تو میں نے آپ سے تمام واقعہ بیان کر دیا تو،ایک آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول اس نے سچ کہا اس مقتول کی مسلوبہ غنیمت میرے پاس ہے آپ اس کو میری طرف سے راضی کر دیں تو سیدناابوبکرصدیق ضی اللہ عنہ کہنے لگے نہیں اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کی طرف قصد کریں جو اللہ تعالیٰ اس کے رسول کے لیے جہاد کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سلب تجھےدےدیں ۔اس حدیث میں " لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ " لا کے بغیر بھی مروی ہے۔[1] بخاری کتاب الاحکام میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہر گز ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک اصبیغ دے دیں اور اللہ کے ایک شیر کو چھوڑ دیں ،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہا ہے لہٰذا اس کی سلب اس کودےدو۔تومیں نے وہ درع بیچ کر ایک باغ خریدلیا تووہ پہلا مال تھاجس کو میں نے اسلام میں کما کربنیاد بنایا۔[2] ابن اعرابی نے کہا سِلمہ جو راوی ہے،وہ ازدمیں بکسر لام ہے قشیر میں بفتح اللام ہے۔ بخاری نے ذکر کیا ہے کہ سلب قاتل کے لیے ہوتی،یہ غنیمت کے اوپر سے بغیر خمس کے ہوتی ہے اور اسلاب سے خمس نہیں نکالا جاتا۔[3]  امام مالک اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ سلب بغیر خمس کے نہیں ہوتی اصحاب مالک میں سے بعض نے اس آیت کودلیل بنایا۔ ﴿ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ﴾ (الانفال: ٤١) اور جان لو کہ تم جو چیز بھی غنیمت حاصل کرو تو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter