Maktaba Wahhabi

117 - 186
بدشگونی ہے کہ جس سے شریعت روکتی ہے۔ اس حوالے سے ہم پر لازم ہے کہ ہم بدشگونی نہ لیں اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے اچھا گمان رکھیں۔ بعض دفعہ آدمی اللہ تعالیٰ کے بارے میں برا گمان رکھتا ہے یا برا کلمہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے جو کہ تقدیر سے موافقت کر لیتا ہے جس کی وجہ سے انسان مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آزمائش کلام کے ساتھ لٹکی ہوتی ہے اور انسان کو وہی مصیبت آپہنچتی ہے جس کا وہ گمان رکھتا ہے۔ بدشگونی لینے والا آدمی کسی معاملے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی غم وتکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے جب کہ بعض لوگ اپنے رب کے بارے میں برے گمان رکھنے کی وجہ سے مصیبتوں کے آنے سے پہلے ہی رنج وغم اور خوف کے عذاب میں پھنس جاتے ہیں۔ اسلام ہمیں اچھا شگون لینے پر ابھارتا ہے کیوں کہ اچھا شگون لینے سے آدمی عمل پر تیار ہوتا ہے اور اسی سے امید بندھتی ہے کہ جو کامیابی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ شریعت کا منشا بھی یہی ہے کہ وہ مسلمان کے لیے کامیابی کے اسباب مہیا کرنا چاہتی ہے۔ ایک طالب علم جب تحریری امتحان یا زبانی امتحان کے لیے کمرہ امتحان میں جاتا ہے تو وہ اپنے رب کے بارے میں گمان رکھتا ہے کہ اس کا رب اسے ہمت اور توفیق دے گا جس کی وجہ سے وہ درست جواب دے کر یا لکھ کر کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے برعکس جو طالب علم بدشگونی کا شکار ہو کر کمرہ امتحان میں داخل ہوتا ہے تو وہ جواب اچھی طرح معلوم ہونے کے باوجود فیل و ناکام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دو سفر کرنے والے آدمیوں کا حال ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک تو اپنی اولاد اور گھر والوں کے بارے میں مطمئن ہو کرسفر کرتا ہے کیونکہ اس کا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا اس کے گھر والوں کی اور اولاد کی حفاظت کرے گا۔ وہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ناپسندیدہ امر ان پر واقع نہیں ہونے دے گا، وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ضائع نہ کرے گا۔ دوسرا آدمی انہی پریشانیوں میں کھویا رہتا ہے کہ میرے بچوں کو ضرور کوئی حادثہ پیش آجائے گا، وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے؟ ان میں سے کوئی ہسپتال ہو گا
Flag Counter