Maktaba Wahhabi

136 - 186
معاملات میں وسوسوں کا زیادہ مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ شیطان ایک مومن آدمی کے دل میں دینی اُمور کے بارے میں بہت سے ایسے بُرے وسوسے پیدا کرتا ہے کہ انسان ان وسوسوں کے بارے میں بات کرنے کی بجائے اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ وہ آسمان سے گرے اور اس کا جوڑ جوڑ الگ ہو جائے، یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا جائے، لیکن وہ ان وسوسوں کے بارے میں بات نہ کرے۔ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ ان وساوس میں پڑنے والے لوگوں کی زیادہ تعداد صحیح اور سچے مومنوں اور مسلمانوں کی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان چاہتا ہے کہ یہ سچے مسلمان بھی دوسرے لوگوں کی طرح اس کے پیچھے چل کر اپنا ایمان ضائع کر لیں۔ صحیح احادیث کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام کو بھی ان وسوسوں سے سابقہ پڑتاتھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسے خیالات اور وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہم کسی سے ان کا ذکر کرنا بہت بُرا خیال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا واقعی معاملہ ایسا ہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانُ۔)) ’’یہی تو خالص ایمان کی نشانی ہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ شیطان اس بندے پر زیادہ حملے کرتا ہے جو کامل ایمان اور اخلاص والا ہوتا ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس مسلمان موحد کے دل میں اتنے وسوسے ڈالے اور اتنے حملے کرے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کی اس معاملے میں واضح رہنمائی فرمائی ہے تاکہ شیطان کامیاب نہ ہو سکے اور مسلمان اس دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ صحیحین میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے
Flag Counter