Maktaba Wahhabi

36 - 186
حَتّٰی یَقُوْلَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ؟ فَاِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ)) [1] ’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے : اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب کوئی اس حالت کو پہنچے تو اسے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور اس بات سے رک جانا چاہیے۔‘‘ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ وہ اپنے دل میں ایسا خیال پاتا ہے کہ اسے بیان کرنے سے آگ کا انگارہ پکڑ لینا بہتر ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ رَدَّ أَمْرَہُ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ)) [2] ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کے معاملہ کو وسوسہ کی طرف پھیر دیا۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’کتاب الایمان‘‘ میں فرماتے ہیں: مؤمن کی آزمائش شیطانی وسوسوں سے کی جاتی ہے۔ جو وسوسہ کفر والا ہو تو اس سے ایک مؤمن اپنے سینے میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں کہ جن کو بیان کرنے سے متعلق ہم پسند کرتے ہیں : آسمان زمین پر گر پڑیں مگر ہم ان وسوسوں کو بیا ن نہ کریں۔ یہ سن کر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہی تو ایمان کی پختگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے شیطان کی تدبیر کو وسوسہ بنا کر رد کر دیا۔‘‘اس کا معنیٰ یہ ہے کہ شیطان مؤمن کو وسوسوں میں ڈالتا رہتا ہے اور جب وسوسے زیادہ ہوتے ہیں تو ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ جب کہ شیطان چاہتا ہے : ایمان کو خراب کر ے اور بندے کو اس رب کا نافرمان بنا دے کہ جس رب نے اس کے لیے خوش بختیاں تیار کی ہیں تاکہ قیامت والے دن و ہ بندہ اس کا جہنم کا ساتھی بن جا ئے ۔ اگر بندہ کمزور ایمان والا ہوتو اسے شیطان جھوٹ، غیر محرموں کو دیکھنااور اس جیسے چھوٹے چھوٹے
Flag Counter