Maktaba Wahhabi

68 - 186
وہ انھیں ابھارتے ہیں، خوب ابھارنا۔‘‘ اگر انسان گناہ کے راستے میں حائل مشکلات سے اکتا کر سست پڑتا ہے تو شیطان اسے دوبارہ متحرک کر دیتا ہے اور اس کاحوصلہ بڑھاتا ہے۔ پھر آدمی ہمیشہ گناہ کی طرف ہی لپکتا ہے اور اپنی پوری کوشش اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں صرف کر دیتا ہے۔ انسان اس دوران اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے وہ اس دشمن کو راضی کر رہا ہے جو ان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور جس نے ان کے باپ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور جیسا کہ درج ذیل اشعار میں شاعر نے شیطان کے متعلق بہت زبردست بات کہی ہے، ہر اس آدمی کے لیے بُرائی کا دلال بننے میں اس لعین کو نہ ہی تو اس اک تکبر اسے منع کرتاہے اور نہ ہی اس کی نخوت و اکڑ۔ شاعر کہتا ہے: عَجبتُ مِنْ اِبْلِیْسَ فِیْ تیْہِہِ وَقُبْحِ مَا أَظْہَرَ مِنْ نُخّوتِہِ تَاہَ عَلَی آدَمَ فِیْ سَجْدِہِ وَصَار قوّادًا لِذُرّیّتِہِ ’’ابلیس کے اپنی عقل کا توازن کھو بیٹھنے اور اس کی جاہلانہ قباحت پر میں بہت حیران ہوں کہ جس کا اظہار اس نے اپنی اکڑ کی صورت میں کیا تھا؛ آدم علیہ السلام کو ایک سجدہ کرنے پر تو وہ بھٹک گیا ( اللہ کے حکم پر عجیب طرح کا فلسفہ بیان کرنے لگا) مگر جناب آدم علیہ السلام کی اولاد کا وہ گناہوں (زنا کاریوں ، فحاشیوں، عیاشیوں) پر دلال بن گیا ہے۔‘‘ شاعر کے اس حقیقت پسندانہ کلام سے بڑھ کر اللہ عزوجل کا اس ضمن میں درج ذیل فرمان ہے: (أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللّٰهَ
Flag Counter