Maktaba Wahhabi

328 - 391
نے انھیں فرمایا: (( یا عدي أسلم تسلم ۔۔۔ الخ )) امام ابن ماجہ اسے ’’باب فی القدر‘‘ میں لائے ہیں اور مسئلہ تقدیر ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس کے متعلق مولانا مرحوم لکھتے ہیں: اس سند میں عبدالاعلیٰ متروک ہے اور تخریج میں رقم طراز ہیں: ’’والحدیث أخرجہ الدارقطني ۲/۲۲۱ والحاکم ۴/۵۱۷ وابن أبي شیبۃ ۱۴/۳۲۴ وأحمد ۴/۳۷۸ والبیھقي في دلائل النبوۃ ۵/۳۴۲ والطبراني في الکبیر ۱۷/۶۹ وابن أبي عاصم في السنۃ ۱/۶۱ ۔۔۔۔ والخطیب في تاریخ بغداد ۱۱/۶۹ الخ‘‘[1] حالانکہ دارقطنی، حاکم، ابن ابی شیبہ، احمد، دلائل النبوۃ میں یہ روایت ’’محمد بن سیرین عن أبي عبیدۃ بن حذیفۃ‘‘ کی سند سے ہے اور ابو عبیدہ نے حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جس میں حضرت عدی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا ذکر ہے، مگر ایمان بالقدر کا ذکر نہیں۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کو ثقہ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ البتہ طبرانی، ابن ابی عاصم اور خطیب کی روایت میں یہ عبد الأعلی عن الشعبي کی سند سے ہے اور ان میں ایمان بالقدر کا ذکر کیا گیا ہے۔ قابلِ غور بات یہاں یہ بھی ہے کہ مولانا مرحوم نے اس حدیث کی تخریج سے پہلے علامہ بوصیری سے نقل کیا ہے: ’’ھذا إسناد ضعیف لاتفاقھم علی ضعف عبد الأعلیٰ ولہ شاھد من حدیث جابر رواہ الترمذي في جامعہ‘‘[2] ’’اس کی سند ضعیف ہے، کیوں کہ محدثین کا عبدالاعلیٰ کے ضعف پر اتفاق ہے اور اس کا شاہد حضرت جابر کی حدیث ہے، جسے امام ترمذی نے اپنی
Flag Counter