Maktaba Wahhabi

332 - 391
’’یحیٰی بن عبدک‘‘ ہے، جیسا کہ ہندی نسخے میں ہے۔ یہاں ایک مسئلہ اور ہے کہ حدیث نمبر ۴۰ کے تحت جو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ ہے، مولانا مرحوم نے اس کی تصحیح کے باوصف فرمایا ہے کہ اس کا ترجمہ تقریب میں ہے۔[1] مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ محمد بن عبداللہ بن اسماعیل ۲۵۷ھ میں فوت ہو جاتے ہیں،[2]جب کہ امام ابو الحسن جو اس سے روایت ’’حدثنا‘‘ سے کرتے ہیں ۲۵۴ھ میں پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا تو محمد بن عبداللہ سے سماع ہی ناممکن و محال ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ذکر کرنے کی یہاں ضرورت ہی نہیں۔ اکثر نسخوں میں ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ ہے اور یہ روایت بھی امام ابو الحسن القطان کی زیادت میں سے ہے۔ مگر اکثر شارحین ومصححین یہ نہیں سمجھ پائے کہ ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ یہاں درست نہیں۔ دکتور بشار عواد نے بھی اسے زوائد ہی میں شمار کیا ہے، مگر اس پر جو اشکال وارد ہوتا ہے، اس کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی۔ حال ہی میں ’’بیت الافکار الدولیۃ‘‘ سے ابن ماجہ کا پانچ چھ شروح و حواشی پر مشتمل نسخہ شائع ہوا، جس میں دکتور بشار پر اعتراض کیا گیا ہے کہ انھوں نے جو اسے زوائد میں شمار کیا وہ ان کا وہم ہے، کیوں کہ ابو الحسن القطان، محمد بن عبداللہ کی وفات کے ایک سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ اور انجاز الحاجہ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’رواہ المزی في الأطراف‘‘ حالانکہ علامہ المزی کی ’’تحفۃ الاشراف‘‘ (۴/۸۰) کے مطبوعہ نسخے میں ہر صاحبِ علم بچشم سر دیکھ سکتا ہے کہ اس میں ’’محمد بن عبد اللّٰه أنبأنا الحسن بن موسی‘‘ کی سند سے حضرت سمرہ بن جندب کی یہ روایت قطعاً نہیں۔
Flag Counter