Maktaba Wahhabi

132 - 285
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مطلقہ جب اپنے خاند کے اہل کو بد گوئی سے زبانی تکلیف دیتی ہوتووہ اپنے گھر سے نکل سکتی ہے،سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی اپنے خاوند کے گھر والوں سے اسی طرح کرتی تھی اور یہی وہ ’’فاحشہ‘‘ ہے۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ﴾ ( الطلاق :1) مطلقہ عورتوں کواپنے گھر سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ نکلیں مگر جبکہ وہ اعلانیہ فاحشہ کاارتکاب کریں ۔ یہ بات رزین وغیرہ نے ذکر کی ہے۔بعض نے کہا کہ اس نے اپنے گھر کےردی قسم کا ہونے کی شکایت کی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گھر چھوڑ نے کی اجازت دے دی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ نیک عورت کی زیارت کے لیے لوگ آسکتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ غائب آدمی پر فیصلہ کیاجاسکتا ہے،کیونکہ ابوعمرونے جب اپنی عورت کوطلاق بھیجی تواس وقت وہ شام میں تھے اور جب وہ گھر سے منتقل ہوئی تھی تواس وقت بھی وہ شام میں تھی اور آپ نے اس کو نکاح کرنے کا حکم دیا،اصیلی نے یہ بات کہی ہے۔ ابوداؤد میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہاہم اپنے رب کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑسکتے،کیا معلوم کہ اسے یاد بھی ہورہاہویانہ۔[1]
Flag Counter