Maktaba Wahhabi

131 - 285
وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو پسند نہ کیا،آپ نے دوبارہ فرمایا۔ " انْكِحِي أُسَامَةَ " کہ اسامہ سے نکاح کرلو تومیں نے اس سے نکاح کرلیا تواللہ تعالیٰ نے میرے لیے اس میں برکت ڈال دی یہاں تک کہ مجھ پر رشک کیاجانے لگا۔[1] خطابی کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قول کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے کر گئی تو آپ نے مجھے رہائش دلائی ا ور نہ خرچہ۔اس میں ایک بات کا خرچہ نہ ہونا،یہ بات توسمجھی جاسکتی ہے مگر رہائش کانہ دینا وہم ہے،آپ نے اس کو اپنے گھرسے منتقل ہونے کے متعلق فرمایا تو وہ اس بات کو نہ سمجھ سکی اور کہنے لگی کہ آپ نے مجھے رہائش بھی اور خرچہ بھی نہیں دیا۔ اور آپ کا یہ فرمان : " اعْتَدِّي عِنْدَ عَبْدِ اللّٰه بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ"سے اس کے لیے رہائش کے وجوب کا ثبوت ملتا ہے،ا س سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک عورت کو بیک وقت دوآدمی نکاح کاپیغام بھیج سکتے ہیں ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلام،قریشی عورت سے نکاح کرسکتاہے،کیونکہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا،سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھی جوقریش اور بنوفہر سے تھیں ۔ا ور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی نکاح کے متعلق پوچھے تواس کو کسی کے متعلق کچھ بتادینا غیبت نہیں ۔یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوجہم رضی اللہ عنہ کے عورتوں کومارنے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فقیر ہونے کا ذکر فرمایا،اہل علم نکاح کے متعلق ایسی بات کرنے کو جائز کہتےہیں جبکہ اس کے متعلق پوچھاجائے اس کے بعد وہ کسی پر گواہی دے،نیز جس کوامام بنایاجائے اس کے متعلق بھی ایسی بات کرسکتاہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ کسی آدمی میں کوئی وصف ہوتواس سے زیادہ بیان کیے جاسکتے ہیں ،کیونکہ سیدنا اباجہم رضی اللہ عنہ کبھی بیٹھتے سوتے کھاتے پیتے بھی تھے مگر آپ نے یہ وصف بیان کیا کہ وہ اپنےکندھے سے لاٹھی اتارتانہیں ۔
Flag Counter