Maktaba Wahhabi

148 - 285
اسے حکم دو کہ وہ رجوع کرے اور اس کو پاک ہونے تک اپنے پاس روک رکھے،پھر چاہے توروک لے اور چاہے تو طلاق دے دے،انہوں نے یہ نہیں کہا" ثُمَّ تَحِيضَ،ثُمَّ تَطْهُرَ " پھر وہ پاک ہو پھرحیض والی ہو۔ اور ثقہ راوی کی حدیث زیادہ مقبول ہوتی ہے اور یہ حدیث کے الفاظ مسلم کی کتاب میں ہے اور زیادتی والی روایات زیادہ صحیح ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف وطی سے رجوع درست نہیں ،جب وہ ا س سے وطی کرے تو اس طہر میں جس میں اس کو چھوا ہے طلاق نہ دے۔ نیز جس حیض میں طلاق دی،اس حیض سے پاک ہو جس میں اسے طلاق دی گئی تواگر اسے طلا ق کا حکم دیاگیا تو گویا کہ اس کو ا س کے رجوع کاحکم دیاگیا تاکہ اس کو طلاق دے،اس طرح تویہ نکاح مؤقت کی طرح ہوگیا۔ محمد بن قیس نے بیان کیاکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی عورت کوحائضہ ہونے کی حالت میں طلاق دے دی توانہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اس سے رجوع کرلے پھر جب وہ پاک ہوجائے تو اس کوچھوئے،ا ور جب وہ دوبارہ پاک ہوجائے تو پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے اور چاہے تو رکھ لے۔[1] راوی نے اس حدیث میں یہ الفاظ زیادہ کیے کہ’’ وہ اس کو چھوئے ‘‘ قاسم کے علاوہ کسی مصنف کے راوی نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔ مصنف عبدالرزاق میں ابن جریج نے ابوالزبیر سے روایت کیاکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لوٹادیا اور اس معاملہ کوکچھ نہ سمجھا [2] بعض ظاہری مذہب والے اس حدیث کو اپنانے لگے توانہوں نے یہ خیال کیا حیض میں طلاق واقع نہیں ہوتی مگر تین طلاقیں یا آخری طلاق،کیونکہ ایسی طلاق تمام علماء کے اجماع سے واقع ہوجاتی ہے۔
Flag Counter