Maktaba Wahhabi

149 - 285
صحیح بات وہی ہے جو بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جوطلاق اپنی عورت کوحیض کی حالت میں دی تھی،تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ طلاق ان پر لازم کردی اور اسے شمار میں لایاگیا،کیونکہ رجوع کے وقوع کے بعد ہی ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : "مَنْ طَلَّقَ فِي بِدْعَةٍ أَلْزَمْنَاهُ بِدْعَتَهُ ’ جس نے طلاق بدعی دی توہم وہ اس پر لازم اور نافذ کردیں گے۔[1] جوشخص کہتاہے کہ حیض میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی تواس کا قول باطل ہوجاتاہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جویہ فرمایا " فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللّٰه أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " یہ وہ عدت ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ عدت طہر ہے۔ا سی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں کہ اقراء سے مراد طہر ہیں ۔مصنفات مذکورہ کے علاوہ دیگر کتب میں حدیث ابن عمر باب اول میں شعیب بن زریق کی طرح ہے کہ انہیں عطا ء خراسانی نے حسن سے روایت کیاکہ ہمیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے اپنی عورت کو حائضہ ہونے کی حالت میں طلاق دی،پھر ارادہ کیا کہ دیگر کتب میں حدیث ابن عمر باب اول میں شعیب بن زریق کی طرح ہے کہ انہیں عطا ء خراسانی نے حسن سے روایت کیاکہ ہمیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں نے اپنی عورت کو حائضہ ہونے کی حالت میں طلاق دے دی اور پھر ارادہ کیاکہ دیگر طلاقیں دونوں قرءوں کے قریب دے دیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات پہنچی توآپ نے فرمایا: "يَا ابْنَ عُمَرَ،مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللهُ،قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ،والسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قُرْءٍ " اے ابن عمر ! اللہ تعالیٰ نے تجھے اس طرح طلاق دینے کا حکم تونہیں کیا توسنت میں غلطی کرگیا سنت یہ ہے کہ طہر آئے توہر قرء کے وقت طلاق دے دو۔
Flag Counter