Maktaba Wahhabi

248 - 285
سیر وغیرہ میں ہےا ور ابن شعبان نے ذکر کیاہے کہ وہ عاریہ سود رعیں اور اس کے ساتھ کافی ہتھیار تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تھا کہ ان کو (ہماری) ضرورت کی سواریاں دے تو اس نے دیدیں ۔نسائی میں ہے کہ تیس اونٹوں پر انہیں لوڈ کیا تھا۔[1] غیر مؤطا میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے ہتھیار مانگے تو ا س نے کہا کیا آپ غضب کے طور پر مانگتے ہیں ؟ توآپ نے فرمایا : "بل عاریت مؤداۃ"[2] نہیں عاریۃً کے طور پر جسے ادا کیاجائے گا۔توعلم کلام کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس ظاہری حدیث کی وجہ سے عاریۃً چیز مستعیر کی ضمانت ہوتاہے اور اس کے مالک کوادا کرنا ضروری ہے،اگر وہ تلف ہوجائے اور اس کا تلف ہونا ہر ایک کو معلوم ہوجائے۔ مالک وغیرہ کہتے ہیں کہ اگر عاریۃ ً چیز کے ہلاک ہونے پر کوئی دلیل قائم ہوجائے تو ضمانت ساقط ہوجاتی ہے۔اور اگر وہ ایسی چیز ہے جو غائب نہیں رہ سکتی مثلا کوئی حیوان۔تو اس کی ضمانت نہیں ہوتی اور جب اس کاجھوٹ ظاہر نہ ہوجائے اور اس کے تلف ہونے کے دعویٰ کو قسم کے ساتھ تسلیم کرلیاجائے گا۔ ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : "يَا صَفْوَانُ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ سِلَاحٍ" اے صفوان تیرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ؟ اس نے پوچھا کیاعاریۃً مانگ رہے ہو یاغضب کے طورپر ؟ توآپ نے فرمایا ’’ بلکہ عاریۃً‘‘ تواس نے تیس سے چالیس تک درعیں آپ کوعاریۃً دیں ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین میں جنگ کی توجب مشرک شکست کھاگئے توصفوان کی درعیں جمع کی گئیں کچھ درعیں گم
Flag Counter