Maktaba Wahhabi

24 - 130
نعمتوں کے عطا کرنے والے خالق و مالک سے ڈرنے والے شخص کے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہوتا ہے اور اتنے فالتو اوقات کہاں ہوتے ہیں کہ وہ ایسے کام کرتا پھرے جو اس کے لیے نقصان اور وبالِ جان بننے والے ہوں ،اس کے بر عکس بعض لوگ وہ بھی ہیں جو بدنی و نفسیاتی سیر و تفریح کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر مان لیتے ہیں اور اس کی اہمیت کو کچھ ایسے انداز ورنگ میں پیش کرتے ہیں کہ اپنے ملکوں اور گھروں میں آدمی گویا جیل میں بند ہو، کل تک ان کے نزدیک بہت بڑی چیز تھی آج اسے وہ معمولی سمجھنے لگے ہیں حتی کہ سیرو سیاحت انکا ایک مالوف و محبوب مشغلہ بن گئی ہے ، اور وہ اس بات سے نظریں پھیر لیتے ہیں اور اس کی پرواہ ہی نہیں کرتے کہ ان ملکوں میں کیا کیا عریانیاں ، فحاشیاں ، آوارگیاں ، اور گناہ کے مناظر دیکھنے پڑتے ہیں جنہیں دیکھنے کو بھی اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیاہے ، بلادِ کفر کے ساحلی کنارے و کورنیش کفرو فسق ، عریانی اور شراب نوشی کے واقعات سے پر ہوتے ہیں ۔ عقل مند سیاح جو یہ جانتے ہیں کہ ان پر کیا کیا فرائض و واجبات ہیں ، وہ اگر کبھی ایسے مقامات پر جا بھی نکلیں تو اپنے فرائض و واجبات کی ادائیگی میں پا بندی کی بجائے سستی کرتا ہے اور اللہ کا خوف اس کے دل میں برابر رہتا ہے ، اور اسے شورو شغب والے مقامات پر وہ نماز جیسی عبادت بھی کرتا ہے تو اسے لذتِ عبادت سکون و اطمینان نصیب نہیں ہوتے ، اور ان چیزوں کا ایسے مقامات پر کیا وجود ہو سکتا ہے ۔ امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نے بعض سیّاحوں کی کیا خوب مثال بیان کی ہے : ’’ ہمیشہ سیرو سیاحت کے لیے دنیا کے کونے کونے میں گھومتے پھرنا،دل کو تشویش میں مبتلا کرنے والا فعل ہے۔ بعض لوگ اپنی عقول اور اپنے دین و مذہب کو محض ریا کاری اور دکھلاوے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ، اور وہ بعض گناہگاروں کے چمک دار الفاظ کو لے لیتے ہیں اور پھر انہی کی عادات ، عبادات ، اور سیرت و کردار کے ظاہری آداب کو اپنا لیتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے
Flag Counter