Maktaba Wahhabi

199 - 548
ذریعے سے اپنے کو آپ کے غصے سے بچا لیتا۔مجھے بحث ومباحثہ کی قوت بھی عطا کی گئی ہے، لیکن اللہ کی قسم ،میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے آج جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرلیا تو اللہ آ پ کو ضرور مجھ سے ناراض کردے گا اور اگر میں نے آپ کو سچی بات بتائی تو آپ ناراض ہوں گے اور میں اللہ کی مغفرت کا امیدوار ہوں گا۔ اللہ کی قسم، میرا کوئی عذر نہیں ہے۔میں آپ کے جانے کے بعد بھی قوی اور آسان رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ بولا ہے: اٹھو حتیٰ کہ اللہ تمھارے بارے میں فیصلہ کردے۔پھر میں اٹھا تو کہا: کیا کسی اور کا معاملہ بھی میرے جیسا ہے۔لوگوں نے کہا: جی ہاں مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ، دو نیک بدری صحابیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے لوگوں کو منع کردیا تو لوگ ہم سے دور ہوگئے۔وہ ایسے بدل گئے کہ مجھے زمین اجنبی نظر آنے لگی۔یہ تو وہ زمین نہیں تھی جسے میں پہچانتا تھا۔ہم اسی طرح پچاس(دن)راتیں رہے۔میرے دونوں ساتھی سکون سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر روتے رہے۔میں لوگوں میں مضبوط اور جوان تھا۔مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتا اور بازاروں میں پھرتا تھا۔میرے ساتھ کوئی بھی بات نہ کرتا۔ میں مسجد میں نماز کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سلام کہتا۔پھر اپنے دل میں کہتا کہ کیا آپ نے سلام کے جواب میں ہونٹ ہلائے ہیں یا نہیں؟ پھر میں آپ کے قریب نماز پڑھتا۔میں چھپی نظروں سے آپ کو دیکھتا۔جب میں نماز پڑھنے لگتا تو آپ مجھے دیکھتے اور جب میں آپ کو دیکھتا تو آپ اپنا چہرہ پھیر لیتے تھے۔پوری پچاس راتیں گزرگئیں میں اپنے گھروں میں سے ایک گھر پر اس حال میں موجود تھا جس کا ذکر اللہ نے کیا ہے۔ مجھ پر اپنی جان اور زمین اپنی وسعتوں کے ساتھ تنگ ہوچکی تھی کہ میں نے سلع کے پہاڑ پر سے ایک اونچی آواز سنی: اے کعب بن مالک !خوش خبری ہو تو میں سجدے میں گر پڑا اور جان لیا کہ میری مصیبت دور ہوچکی ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی تو اس کا اعلان کیا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کرلی ہے۔ لوگ مجھے خوش خبریاں دے رہے تھے۔ایک آدمی گھوڑے پر میرے پاس آیا۔اسلم قبیلے کے ایک آدمی نے پہاڑ پر سے آواز دی۔اس کی آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی جس شخص نے مجھے خوش خبری دی تھی
Flag Counter