Maktaba Wahhabi

273 - 548
یُوْطِنُ الْأَمَاکِنَ وَیَنْھٰی عَنْ إِیْطَانِہَا۔وَإِذَا انْتَھٰی إِلٰی قَوْمٍ جَلَسَ حَیْثُ یَنْتَھِيْ بِہِ الْمَجْلِسُ، وَیَأْمُرُ بِذٰلِکَ وَیُعْطِيْ کُلَّ جُلَسَائِہٖ بِنَصِیْبِہٖ، وَلَا یَحْسَبُ أَحَدٌ مِنْ جُلَسَائِہٖ أَنَّ أَحَدًا أَکْرَمُ مِنْہُ۔مَنْ جَالَسَہٗ أَوْ قَاوَمَہٗ لِحَاجَۃٍ صَابَرَہٗ حَتّٰی یَکُوْنَ ھُوَ الْمُنْصَرِفَ، وَمَنْ سَاَلَہٗ حَاجَۃً لَمْ یَنْصَرِفْ إِلاَّ بِہَا؛ أَوْ بِمَیْسُوْرٍ مِنَ الْقَوْلِ۔قَدْ وَسِعَ النَّاسَ خُلُقُہٗ فَصَارَ لَھُمْ اَبًا نَصَفَۃً وَخُلُقًا، وَصَارُوْا عِنْدَہٗ فِی الْحَقِّ سَوَائً۔مَجْلِسُہٗ مَجْلِسُ حِلْمٍ وَ حَیَائٍ وَ صَبْرٍ وَأَمَانَۃٍ۔لَا یُرْفَعُ فِیْہِ الْاَصْوَاتُ، وَلَا یُؤْبَنُ فِیْہِ الْحُرَمُ، وَلَا تُنْثٰی فَلَتَاتُہٗ۔مُعْتَدِلِیْنَ یَتَوَاصَوْنَ فِیْہِ بِالتَّقْوٰی۔وَسَاقَ الْحَدِیْثَ إِلٰی أَنْ قَالَ:قَدْ تَرَکَ نَفْسَہٗ مِنْ ثَلاَثٍ: الْمِرَآئَ؛ وَالْاِکْثَارَ وَمَا لَا یَعْنِیْہِ، وَإِذَا فِيْ آخِرِہٖ۔قَالَ:فَسَاَلْتُہٗ کَیْفَ کَانَ سُکُوْتُہٗ؟ قَالَ:کَانَ سُکُوْتُ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلٰی أَرْبَعٍ: عَلَی الْحِلْمِ(وَالْحُزْنِ)وَالْحَذَرِ، وَالتَّقْدِیْرِوَالتَّفْکِیْرِفَاَمَّا تَقْدِیْرُہٗ، فَھِيَ تَسْوِیَۃُ النَّظْرِ وَالْاِسْتِمَاعِ مِنَ النَّاسِ، وَأَمَّا تَفْکِیْرُہٗ فَفِیْمَا یَبْقٰی وَیَفْنِيْ، وَجُمِعَ لَہُ الْحِلْمُ وَالصَّبْرُ فَکَانَ لاَ یُغْضِبُہٗ شَيْئٌ وَلَا یَسْتَفِزُّہٗ، وَجُمِعَ لَہُ الْحَذَرُ فِيْ أَرْبَعَۃٍ:أَخْذِہٖ بِالْحَسَنِ فَیُقْتَدٰی بِہٖ؛ وَتَرْکِہِ الْقَبِیْحَ لِیُنْتَھٰی عَنْہُ؛ وَاجْتِھَادِہِ الرَّأْیَ فِیْمَا أَصْلَحَ اُمَّتَہٗ، وَالْقِیَامِ فِیْمَا خَیْرَ لَھُمْ فِیْمَا یَجْمَعُ لَھُمْ خَیْرَالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد محترم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے(گھر میں)دخول کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: آپ جب گھر تشریف لاتے……پھر راوی نے حدیث بیان کی اور کہا: آپ اللہ کے ذکر کے بغیر نہ بیٹھتے اور نہ اٹھتے۔آپ کسی خاص جگہ کو روزانہ بیٹھنے کے لیے منتخب نہ کرتے اور ایسا کرنے سے دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔جب آپ ایک مجلس میں پہنچتے تو جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اس کا حکم دیتے۔ہر ساتھی کو مجلس کا حق دیتے۔آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی یہ نہ سمجھتا کہ اس سے زیادہ کوئی دوسرا شخص آپ کے نزدیک عزت والا ہے جو کسی ضرورت کا طالب ہوتا تو اس کے جانے تک اس کے ساتھ مصروف رہتے۔ حاجت مند کی ضرورت پوری کرتے یا اچھے کلام سے جواب دیتے۔آپ کا اخلاق تمام لوگوں پر محیط تھا گویا آپ ان کے والد تھے انصاف اور اخلاق کے لحاظ سے تمام لوگ حق کے معاملے میں آپ کے نزدیک ایک برابر تھے۔آپ کی مجلس بردباری، حیا، صبر اور امانت والی مجلس ہوتی تھی۔اس میں نہ
Flag Counter