’’کَانَتْ عَائِشَۃُ رضی اللّٰه عنہا تَطُوْفُ حَجْرَۃً مِنَ الرِّجَالِ، لَا تُخَالِطُہُمْ۔
فَقَالَتْ امْرَأَۃٌ: ’’اِنْطَلِقِيْ، نَسْتَلِمْ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ!‘‘
قَالَتْ: ’’اِنْطَلِقِيْ عَنْکِ۔‘‘
وَأَبَتْ۔‘‘[1]
’’عائشہ رضی اللہ عنہا مردوں سے ہٹ کر الگ تھلگ طواف کیا کرتی تھیں۔
ایک عورت نے کہا: ’’اے اُمّ المومنین! چلئے ہم (بھی حجر اسود کو) چھوئیں۔‘‘
انہوں نے فرمایا: ’’تو ہی چلی جا۔‘‘
اور (خود جانے سے) انکار کیا۔‘‘
پانچ علماء کے اقوال:
ا: امام ابن منذر لکھتے ہیں:
’’وَأَجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الطَّوَافَ یُجْزِیئُ مِنْ وَرَائِ السَّقَایَۃِ۔‘‘[2]
[ان (یعنی علمائے امت) کا اس بات پر اجماع ہے، کہ زمزم پلانے کی جگہ کے پیچھے سے کیا ہوا طواف کفایت کرتا ہے۔]
ب: امام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں:
’’وَیَجُوْزُ أَنْ یَطُوْفَ مِنْ وَرَائِ قُبَّۃِ زَمْزَمَ وَمَا وَرَائَہَا مِنَ السَّقَائِفِ الْمُتَّصِلَۃِ بِحِیْطَانِ الْمَسْجِدِ۔ وَأَمَا إِذَا أَمْکَنَ
|