Maktaba Wahhabi

288 - 360
۲: علامہ ابن قدامہ تحریر کرتے ہیں: ’’صحیح بات یہ ہے، کہ اس کا آخری وقت متعین نہیں، سو وہ جب بھی کرے گا، بلا اختلاف درست ہوگا۔ صرف دم کے واجب ہونے میں اختلاف ہے۔‘‘[1] ۳: علامہ نووی نے قلم بند کیا ہے: ’’پس اگر اس نے اسے مؤخر کیا اور ایام التشریق[2] میں کرلیا، تو وہ اسے کفایت کرجائے گا اور اس بات پر اجماع ہے، کہ اس [تاخیر] کی بنا پر دم لازم نہ آئے گا۔ اگر اس نے اسے ایام تشریق کے بعد کیا، تو ہمارے اور جمہور علماء کے قول کے مطابق وہ اسے کفایت کرے گا اور اس پر کوئی دم نہ ہوگا، مالک اور ابوحنیفہ کے مطابق اس پر دم ہوگا۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔[3] خلاصہ گفتگو یہ ہے، طوافِ افاضہ یوم النحر کے بعد کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے، البتہ قربانی کے دنوں میں اس کے کرنے پر بالاتفاق کوئی دم لازم نہیں آئے گا اور ان کے بعد کرنے پر بعض علماء دم کو واجب کرتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک تب بھی کوئی دم نہیں دینا ہوگا۔ ج: یوم النحر کے غروبِ آفتاب تک طواف نہ کرنے کی صورت میں حالتِ احرام میں واپس آنا ہوگا۔ امام ابن خزیمہ نے پہلی حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ النَہْيِ عَنِ الطِّیْبِ وَاللِّبَاسِ إِذَا أَمْسَی الْحَاجُّ یَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ یُفِیْضَ، وَکُلِّ مَا زُجِرَ الْحَاجُّ عَنْہُ قَبْلَ رَمْيِ
Flag Counter